تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی

 
عالمگیر آفریدی
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سنٹر نے کہا ہے کہ کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) کی تعمیل میں ناکامی پر ملک کے 22 تعلیمی ادارے گزشتہ 48گھنٹوں کے دوران بند کردیئے گئے ہیں‘ اطلاعات کے مطابق ان تعلیمی اداروں میں سے 16کاتعلق خیبر پختونخوا، ایک کا اسلام آباد اور پانچ کا آزاد جموں و کشمیر سے ہے۔یاد رہے کہ کورونا وائرس کا وبائی مرض دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پھیلنے کے بعد ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے مارچ کے وسط میں عین اس وقت بند کر دیئے گئے تھے جب چاروں صوبوں میں میٹرک کا سالانہ امتحان شروع ہوگیا تھا اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحان کے شروع ہونے میں محض ایک ماہ کا عرصہ رہ گیا تھا البتہ اب جب چھ ماہ کے وقفے کے بعد ملک کے تعلیمی ادارے 15ستمبر سے بتدریج دوبارہ کھل گئے ہیں تووہ خدشات بدستور موجودہیں جن کا ظہار تعلیمی ادارے کھولتے وقت مختلف حلقوں کی جانب سے کیاجارہا تھا‘ حکومتی فیصلے کے تحت پہلے مرحلے کے دوران نویں اور دسویں جماعتوں کے علاوہ کالجز اور یونیورسٹیاں 15ستمبر سے کھول دی گئی ہیں جب کہ 23ستمبر سے مڈل تک سکولز اور 30ستمبر سے پرائمری سکولز کھولنے کااعلان کیا گیا ہے جس کانجی تعلیمی اداروں نے تو بھر پور خیرمقدم کیا ہے البتہ والدین کی اکثریت اگر ایک جانب تعلیمی ادارے کھلنے پر خوش ہے تودوسری جانب انہیں اپنے بچوں کی صحت کی فکر بھی لاحق ہے‘ یہ امر لائق تحسین ہے کہ این سی او سی کی جانب سے جاری کردہ ہدایات میں والدین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو طے شدہ ایس او پیز کے مطابق تعلیمی اداروں میں بھیجیں جس میں ماسک پہننا،سماجی فاصلے کو برقرار رکھنااور ہینڈ سینی ٹائزرکا استعمال شامل ہے‘والدین کوکہا گیا ہے کہ کھانسی اور بخار کی علامات کی صورت میں وہ اپنے بچوں کو سکول نہ بھیجیں‘ اگربچوں میں کوویڈ 19کے واضح علامات ظاہر ہوں تو انہیں اپنے بچوں کاکورونا ٹیسٹ کرواکر رپورٹ مثبت آنے کی صورت میں تعلیمی ادارے کو آگاہ کرنا چاہئے‘مزید یہ کہ ٹرانسپورٹرزکوبھی سکولوں میں جاتے ہوئے گاڑیوں میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا چاہئے‘یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اب تک کی سامنے آنے والی اطلاعات میں بڑے اور درمیانے درجے کے نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں تو طے شدہ ایس او پیز پر عملدرآمد کیاجارہا ہے لیکن تعلیمی اداروں پر مسلسل اور سخت چیک رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے‘دریں اثناء یہ بات خوش آئند ہے کہ خیبرپختونخوا ڈائریکٹریٹ آف کیریکلم اینڈ ٹیچرز ٹریننگ نے تعلیمی اداروں کی چھ ماہ تک بندش کی وجہ سے طلباء وطالبات کے ہونے والے تعلیمی نقصان کومدنظر رکھتے ہوئے سرکاری اور نجی سکولوں کے نصاب پرنظرثانی کافیصلہ کیا ہے‘ڈی سی ٹی ای ڈائریکٹریٹ کے مطابق موجودہ تعلیمی سال کے باقی چھ ماہ میں طلبا ء کو زیادہ سے زیادہ کورس پڑھانے کیلئے طے شدہ نصاب کو مختصر کیاگیا ہے گو کہ اس اختصار کی تفصیلات ابھی سامنے آ نا باقی ہیں لیکن توقع ہے کہ اس نصاب کوبناتے ہوئے محض اختصار کے پہلوکو مدنظر نہیں رکھاگیا ہوگا بلکہ طلباء وطالبات کی موجودہ تعلیمی ضروریات کیساتھ ساتھ ان کی مستقبل کی پیشہ ورانہ تعلیم میں درکار ضروریات کو بھی لازماً اہمیت دی گئی ہوگی۔ڈی سی ٹی ای ڈائریکٹریٹ کے نئے تعلیمی کیلنڈرمیں اساتذہ کو 2021 ء کے میٹرک کے امتحان کے حوالے سے بھی نظر ثانی شدہ نصاب اور رہنما اصول فراہم کئے گئے ہیں‘ڈی سی ٹی ای ڈائریکٹریٹ کے مطابق یہ نیا نصاب اساتذہ کومختلف مضامین کی تدریس کے ضمن میں ایک رہنما کا کردار ادا کرے گا جس سے اگر ایک طرف ضائع شدہ تدریسی وقت کو پورا کیاجاسکے گا تودوسری جانب اس سے طلباء وطالبات کو مختصر وقت میں کورسز بھی مکمل کروائے جا سکیں گے‘یہ بات قابل ذکرہے کہ یہ مختصر نصاب انٹر میڈیٹ اور ثانوی تعلیمی بورڈز اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے‘اسی طرح یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ متعلقہ اداروں کیلئے یہ سوال ایک بڑا چیلنج تھا کہ تعلیمی سال کے باقی ماندہ چھ ماہ میں کیا پڑھانا ہے اس کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ یقینا اہم اور پیچیدہ تھاجس کا اختیار اساتذہ یا متعلقہ تعلیمی اداروں کو نہیں دیاجاسکتا تھا لہٰذا اس ضمن میں تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت اور ہر لحاظ سے احتیاط کی ضرورت تھی‘ امید ہے کہ زیر بحث مختصر تعلیمی کیلنڈر نہ صرف ساتذہ کرام کواس قابل بنائے گا کہ وہ دستیاب وقت کا موثر اور بھرپور استعمال کرتے ہوئے کورس کے تمام ضروری مضامین کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں بلکہ اس سے اساتذہ کرام کو منظم رہنمائی حاصل ہونے کیساتھ ساتھ طلباء وطالبات کواگلے سال کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات کی موثر تیاری اور ان امتحانات میں اچھے نتائج کے حصول میں بھی خاطر خواہ مدد مل سکے گی۔گو بعض تعلیمی اداروں نے وقت کیہونے والے ضیاع کاسدباب آن لائن کلاسوں کے ذریعے کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی تھی لیکن اولاً چونکہ ہمارے ہاں اس حوالے سے درکار وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ثانیاً چونکہ کلاس روم اور آن لائن طریقہ تدریس میں زمین آسمان کا فرق ہے اس لئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے آن لائن ٹیچنگ پر انحصار فی الحال ممکن نہیں ہے۔