طنزیہ سنجیدہ کام

’مزاحیہ صحافت‘ کی عالمی تاریخ میں کئی سنجیدہ (قابل ذکر) کام بھی ہوئے ہیں‘ جن میں سے ایک سائنسی و غیرسائنسی دریافتوں سے متعلق ہے جس میں بالخصوص ناقابل یقین علمی تحقیق اور واقعات کو شائع کرنے کا سلسلہ ”جرنل آف ائرریپروڈیوسبیل رزلٹ“ نے 1955ءمیںشروع کیا جہاں صحافی الیگزینڈر کہون (Alexander Kohn) اور سائنسدان ہیری جے لیپکن (Harry J. Lipkin) نے سائنس کے شعبے میں اُن تحقیقات کو منظرعام پر لانے اور بعدازاں اُنہیں سالانہ اعزازات دینے کا فیصلہ کیا‘ جن کے بارے میں مزاحیہ انداز میں سوچا جاتا ہے لیکن درحقیقت اُن کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی گہری بات چھپی ہوتی ہے‘ جس سے عجائبات دنیا میں اضافہ ہوتا ہے۔ عالمی ”نوبل امن انعام“ کی طرح ”اگ نوبل انعام“ بھی کسی طرح کم اہم نہیں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ ہر سال دس درجات (کیٹیگریز) میں دیئے جانے والے اِن اعزازات کو بہت کم لوگ وصول کرنا پسند کرتے ہیں


 اور اِس سے بھی کم لوگ اِس کے ملنے پر فخر کرتے ہیں!مزاحیہ سائنسی جریدے نے اعزازات کے اعلان (سترہ ستمبر) کے ساتھ کچھ تفصیلات بھی جاری کیں‘ جو اُن کی ویب سائٹ improbale.com پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر مختصر و تفصیلی تبصروں کے بارے میں جاننا بھی کم دلچسپ نہیں اور بار بار ہنسنے یا مسکرانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ مثلا سال 2020ءکا ’اگ نوبل اعزاز‘ جیتنے والوں میں وہ تحقیق کار (ریسرچرز) بھی شامل ہیں جنہوں نے انسانوں میں پائی جانے والی ”خودپسندی“ کو جاننے کے لئے دیگر حشرات الارض (زمینی کیڑے مکوڑوں) پر تجربات کئے اور اِن تجربات کے نتائج کا مشاہدہ کیا۔ تجربہ یہ تھا کہ وہ کیڑے مکوڑوں کو تیزی سے ہلاتے تھے اور اِس کے بعد اُن کی شکل اور حرکات میں آنے والی تبدیلیوں کو فہرست (نوٹ) کرتے رہے۔


 بظاہر یہ تحقیق سطحی اور ”محض بےوقوفی“ لگتی ہے لیکن اگر غور سے مشاہدہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ اگ نوبل انعامات کے ذریعے سامنے لائی جانے والی زیادہ تر تحقیقات کا مقصد حقیقی زندگی کے مسائل سے نمٹنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سنجیدہ علمی حلقے اور انتہائی مستند و معتبر جرائد و علمی اشاعتوں (میگزیز) میں یہ تحقیقات شائع ہوتی ہیں۔”عالمی اگ نوبل انعام“ رواں برس 30ویں مرتبہ پیش کیا گیا ہے۔ ان انعامات کا مرکز امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی (سینڈرز تھیٹر) ہے اور یہ تقریب ہمیشہ خاصی ہنگامہ خیز ہوتی ہے‘ جس میں اکثر ایک کم عمر لڑکی کو شامل کیا جاتا ہے جو تقریب کے شریک کسی شخص یا انعام یافتگان کے اعلان پر ’بورنگ‘ کی آوازیں کستی ہے جبکہ ہال میں زیادہ تر لوگ اِس موقع پر کاغذ کے ہوائی جہاز اڑا رہے ہوتے ہیں لیکن رواں برس کورونا وبا کے سبب یہ تقریب آن لائن منعقد ہو گی اور صرف ’اگ نوبل انعام یافتہ‘ افراد ہی تقریب میں شریک ہوں گے۔


 رواں برس (دوہزاربیس) کے اگ نوبل انعامات جیتنے والی ہر شخص یا ٹیم کو ”10کھرب ڈالر“ کا نقد اِنعام دیا جاتا ہے تاہم یہ 10کھرب زمبابوے ڈالرز میں ادا ہوتے ہیں! ”صوتی طب“ درجے میں انعام کے حقدار سٹیفن ریبر‘ ٹاکیشی نشیمورا‘ جوڈتھ جینش‘ مارک رابرٹسن اور ٹیکسمے فچ قرار دیئے گئے ہیں جنہوں نے ہیلیئم گیس سے بھرے ایک کمرے (چیمبر) میں مادہ مگرمچھ کو داخل کرنے اور اُس کی آواز میں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا۔ اِس تجربے کا مقصد جانوروں کے آپس میں بات چیت کرنے کے عمل کو سمجھنا تھا۔ ”نفسیات“ کے درجے میں مرانڈا گایاکومین اور نکولس روول کو اعزاز ملے گا جنہوں نے خود پسند افراد کی شناخت اُن کی بھوو¿ں کے ذریعے کرنے کا طریقہ وضع کیا۔ ”(قیام) امن (کی عالمی کوششوں کے تحت)“ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو اعزاز دیا جائے گا‘ جن کے سفارتکاروں کو شکایت ہے کہ نامعلوم افراد آدھی رات کے بعد اُن کے گھروں کی گھنٹیاںبجا کر بھاگ جاتے ہیں۔


 ”طبیعیات“ کے درجے میں آئیون مکسیموف اور اینڈری پوٹسکی کو اعزاز دیا جائے گا جنہوں نے کیڑے مکوڑوں کو ہلانے جلانے سے اُن کی شکل و صورت میں آنے والے فرق کا مشاہدہ کیا۔”معاشیات“ کے درجے میں کرسٹوفر واٹکنز اور ان کے ساتھی انعام کے حقدار قرار پائے ہیں جنہوں نے مختلف ممالک کی قومی آمدنی میں عدم مساوات اور وہاں کے رہنے والوں کے آپسی جنسی تعلقات کے مابین تعلقات جاننے کی کوشش کی ہے۔ ”مینجمنٹ“ کے درجے میں چین سے تعلق رکھنے والے پانچ پیشہ ور قاتلوں کا انتخاب کیا گیا ہے جنہوں نے ایک ہی قتل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا اور طویل تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ قتل اِن میں سے کسی نے بھی نہیں کیا تھا۔ ”اینٹومولوجی“ کے درجے میں رچرڈ ویٹر کے نام اعزاز ہے جنہوں نے اِس بات کے ثبوت اکٹھا کئے کہ اینٹومولوجسٹ یعنی کیڑوں کا مطالعہ کرنے والے سائنسدان مکڑیوں سے ڈرتے ہیں جبکہ مکڑی کیڑے کی قسم نہیں ہے


 اور آخری درجے یعنی ”طب (میڈیکل) کی تعلیم“ کے شعبے میں غیرمعمولی (مزاحیہ) خدمات سرانجام دینے والوں میں اِس مرتبہ سربراہان مملکت کا انتخاب کیا گیا ہے۔ برازیل کے جائر بولسنارو‘ برطانیہ کے بورس جانسن‘ بھارت کے نریندر مودی‘ میکسیکو کے آندریز مینویئل لوپیز اوبراڈو‘ بیلاروس کے الیگزینڈر لوکاشینکو‘ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ ترکی کے طیب اژدگان‘ روس کے ولادیمیر پوتن اور ترکمانستان کے صدر گربنگولی بردی محمدویو کو انعامات دیئے جائیں گے کیونکہ اِنہوں نے کورونا وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ متعلقہ شعبے کے سائنس دانوں‘ تحقیق کرنے والے ماہرین اور ڈاکٹروں کی نسبت سیاست دان بیماریوں کو زیادہ سمجھتے ہیں اور اِن کی تدابیر کا زندگی و موت پر زیادہ و فوری اثر ہوتا ہے۔