میں اس بینک کی دوسری چھت میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب نظر پڑی توایک نوجوان ِ دوڑتا سیڑھیاں پھلانگتا اوپر آ رہاتھا۔ اس کے قدموں کی چاپ نے مجھے اس کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ کس طرح پہلی سیڑھی سے میرے قریب آخری سیڑھی تک پلک جھپکتے میں پہنچا تھا۔ میں اس وقت احساس کمتری کا شکارہوگیا ۔ کیونکہ میں انھیں سیڑھیوں پرآرام سے چڑھ کر اوپر پہنچا تھا۔سیڑھی کنارے سٹیل کے جنگلوں کو پکڑ کر کہیں چکرا گیا تو سیدھا نیچے گرانڈ والی منزل پر نہ پہنچوں۔پھر ضمانت بھی تو نہیں کہ واپسی کی آخری سیڑھی کہیں سچ مچ آخری سیڑھی ثابت نہ ہو ۔میں اس بیش قیمت سرخ صوفے پر بیٹھ کر تا دیر سوچتا رہا۔ سوچ رہاتھا کہ دریا الٹا نہیں چل سکتا۔ پانی پر دیا جل نہیں سکتا سورج کی کرن جم نہیںسکتی ۔اسی طرح جوانی کی ندی کا تیز پانی بھی تو واپس اسی راستے سے نہیں لوٹتا۔” سمے کے سمندر کہا تو نے جو بھی سنا پر نہ سمجھے ۔
جوانی کی ندی میں تھا تیز پانی ذرا پھر سے کہنا“ ( امجد اسلام امجد )۔ وہ بیت ذہن کے دروازوں پر ہلکی ہلکی دستک سے ہوشیار کرنے لگا ” گو جوانی میں تھی کج رائی بہت۔ پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت“ ( مولانا الطاف حسین حالی)۔ جوانی جس طرح بھی گزری ہو جب بڑھاپا عمر کی دہلیز پر آکر دروازہ کھڑکھڑاتا ہے تو بیتے دنوں کی یادوں کو آنے اور جوانی کو دماغ میں کلبلانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔میں اس وقت سوچ میں تھا کہ خود میںاسی طرح سیڑھیاں چڑھتے کیوں اوپر تک نہیں آیا۔ مگر ظاہر ہے کہ ذہن میں احتیاط کا خیال تھا کہ کہیں پاں پھسل نہ جائے کہیں پیر الٹ نہ جائے۔ کہیں اوپر سے آتے ہوئے کسی فردسے ٹکرا کر واپس نیچے نہ جائیں۔ مگر اس وقت ایک بجلی سی چھلانگ لگا کر ذہن کو روشن کر گئی ۔ یاد آیا کہ یہ جوان تو ایک ایک سیڑھی پر سے دوڑ کے پھلانگتا ہواآیا ہے۔ مگر ہم بھی اپنے زمانے میں کیا کم تھے۔ ہم تو ایک کے بجائے دو دو سیڑھیاں پھلانگ کر کسی بھی عمارت میں تیسری منزل تک چلے جاتے تھے۔
کیا زمانہ تھا فرصت بھی تھی اور بازں میں توانائی بھی اور ٹانگوں میں پھرتی بھی ۔ چوک ناصر خان والے گھر سے گلشن رحمان کالونی گئے تھے تو پیدل پھر ٹیوشن کے لئے سول کوارٹرز جاتے تو پیدل ۔پھر واپس پیدل گھر آتے تو نہ تھکن ہوتی اور نہ ہی گھٹنوں سے ٹیسیں اٹھتیں۔ اب تو خیر سے بیٹھ جائیں تو اٹھا نہیں جاتا اور کھڑے ہوں تو بیٹھنے کے لئے بھی سہارا چاہئے ۔ مگر خیر اب بڑھاپے نے اتنے بھی کڑے اور گہرے وار نہیں کئے۔ مگر اب یہ حال ہے کہ پاں کے بل بیٹھ کراٹھو تو چار پانچ سیکنڈ کے لئے آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے او رگٹے گوڈوں میں سے چٹاخ پٹاخ کی آوازیں نکلتی ہیں ۔ اگرزندگی نے تا دیر وفا کی تو آنے والے زمانے میں تو اپنی کیفیت اور ناقابلِ بیان ہوگی۔ جوانی چیز ہی ایسی ہے کہ جن کے پاس ہے انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔جیسے کمر پیچھے بلی پنجوں کے بل گزر جائے ۔جوانی جن کے پاس ہے ان کے ہاتھوں چکنی مچھلی کی طرح پھسل کر وقت کے دریامیں چھلانگ لگا کر گم ہوجائے ۔
انھیں تب معلوم پڑتا ہے کہ جس چیزکو ہم نے کچھ نہ سمجھا وہ تو بڑی نعمت تھی۔ اصل میں جن کے پاس یہ قابلِ قدر اشیاءہوں انھیں ان کی قدر نہیں ہوتی اور جن کے پاس نہ ہوں انھیں اس سے محرومی کا احساس بیماریوں کی صورت میں ہمہ وقت رہتا ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ ہم ویسے نہ تھے ہم بھی ان جیسے تھے جو اب جوانی کے پرشور دریا میں بنا ہاتھ پاں ہلائے دور تک چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو تصویریں دیواروں پر ٹانکتے تھے ۔ مگر اب موبائل میں اپنی تصویر دیکھتے ہیں تو دل کو طمانیت اور سکون حاصل ہوتا ہے کہ جھوٹ تو نہیں کہ ہم خوبصورت ہیں ۔کبھی جوانی میں احمد فراز کے ساتھ پشاور یونیورسٹی کے ایک مشاعرے میں ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ان سے آٹو گراف لینے کی تصویر موبائل کی گیلری سے سامنے آئے تو سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ۔ ایک تو اس جینیئس شاعر کی وجہ سے کہ اس کے پہلو بہ پہلو ہیں اور دوسرا اپنی جوانی کی رعنائی اور جوش و خروش کو دیکھ کر ۔ مگر دوسرے ہی لمحہ شاخ پر کھلے ہوئے سرخ گلاب کی طرح کہ جس کو خزاں وہیں اپنے نرغے میں لے کر نچوڑ دے مروڑ دے دل مرجھا جاتا ہے۔ کیونکہ نہ تو احمد فراز رہے اور نہ ہی ہماری جوانی کا وہ دور ترو تازہ رہا۔مگر ایسا تو ہوتا ہے ۔یہ لوگ کتنے بڑے دھوکے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سمجھتے ہیں یہ زورِ بازو یہ امنگ یہ شبنم پڑے پھول کی طرح کی جوانی یونہی جگمگاتی جاگتی رہے گی۔