انصاف اور سزا کا تکون

آج کل اخبارات میں سزاوں کا ذکر ہو تا ہے اسلامی تعزیرات کی بات آتی ہے جب بھی کوئی گھنا ﺅنا جرم ہو تا ہے سر کار کہتی ہے مجرم سزا سے نہیں بچ سکیںگے مگر مجرم سزا سے بچ جا تے ہیں جب بھی کوئی بڑی واردات ہوتی ہے حکومت کہتی ہے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جائے گا لیکن کوئی مجرم کیفر کردار تک نہیںپہنچتا یہ سلسلہ آج یا کل کا نہیں نصف صدی سے اسی طرح جا ری ہے مجرم اور قانون کے درمیان آنکھ مچو لی کھیلی جا رہی ہے اور اس کھیل میں انصاف کا خون ہو جا تا ہے لو گ جج کو بد نام کر تے ہیں منصف پر انگلی اٹھاتے ہیں پو لیس کے کر دار میں کیڑے ڈالتے ہیں مگر انصاف اور سزا کا تکون کسی کو نظر نہیں آتا‘ اس تکون کا سب سے اہم زاویہ داروغہ ، کو توال یا پو لیس نہیں اس کا اہم ترین زاویہ عوام اور معا شرہ ہے وطن عزیز پا کستان میں مجرم اس لئے بچ جا تا ہے کہ پو را معا شرہ مجرم کی سر پرستی کرتا ہے عوام مجرم کی حما یت کر تے ہیں مجرم کو پناہ دیتے ہیں بڑی معصو میت سے کہتے ہیں

 اس کے بوڑھے ماں باپ یا چھوٹے چھوٹے بچے ہیں عوام کو اس کا جرم نظر نہیں آتا اس کے ماں باپ اور بچے نظر آتے ہیں اسی وجہ سے کوئی بھی ملزم کسی جرم کی پاداش میں پکڑا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ اس سے پہلے 6وارداتوں میں پکڑا جا چکا ہے عدالت سے بری ہو کر اگلی واردات کر تا ہے اگر اُس نے واردات کیا تو عدالت سے کیوں بری ہوتا ہے ؟ عدالت کہتی ہے عدم ثبوت کی بناءپر ملزم کو بری کیا جا تا ہے عدم ثبوت کا مطلب یہ ہے کہ گو اہوں نے درست گواہی نہیںد ی پو لیس نے اسکا مقدمہ قانون کے مطا بق درست طریقے سے پیش نہیں کیا ملزم یا مجرم معمولی اور کمزور آدمی نہیں ہوتا اس کے پاس بے تحا شا دولت ہو تی ہے اُس کی پُشت پر ملکی یا غیر ملکی طا قت ہو تی ہے تفتیش کا عمل شروع ہو تے ہی دولت کا استعمال شروع ہو جا تا ہے


 پو لیس آرڈر 2002کے تحت ہماری پولیس تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے تفتیش کا محکمہ الگ ہے عملدر آمد والا الگ ہے اور عدالت میں پیش کرنے والا الگ ہے تینوں کے درمیان کوئی رابطہ ، کوئی تعلق اور کوئی ہم آہنگی نہیں ہے ‘ اگر انصاف اور سزا کا پہلا زاویہ عوام یا معا شرہ سامنے آئے تو عدالتی نظا م کا پول کھل جا تا ہے عدالت میں پیش ہونے والے ہزار گواہوں میں سے ایک گواہ بھی مفت میں گواہی نہیںدیتا پولیس اور پراسیکیو شن کے پاس گواہ کو خوش کرنےکا کوئی انتظام نہیں اسلئے گواہ ملزم کے خر چ پر آتا ہے اس کی گوا ہی مقدمے کو مشکوک بنا کر ملزم کو شک کا فائدہ دینے کے لئے ہو تی ہے سفید پو ش اور شریف لو گ گواہی دینا پسند نہیں کرتے‘ جھوٹی گواہی دینے اور سچی گوا ہی کو چھپا نے پر جسٹس آصف سعید کھو سہ کا ایک اہم فیصلہ پی ایل ڈی میں مو جو د ہے مگر اس کو نظیر کے طور پر پیش کرنے کی نو بت ابھی نہیں آئی آج اگر گھناﺅنے جرائم کے مجرم سزا سے بچ جا تے ہیں یا جرائم پیشہ عنا صر کو کیفر کر دار تک پہنچا نے میں حکومت کونا کامی ہو تی ہے تو اسکی بڑی وجہ جج ، منصف یا کر سی نشین نہیں پو لیس کی کو تا ہی اور عوام کی غفلت ہے عوام کی تا ہی اور گواہوں کی عدم دستیا بی کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا یہ انصا ف اور سزا کا تکون ہے جسکا سب سے بڑا زاویہ ہما را معا شرہ ہے اس وقت جتنے بھی قوانین مو جو د ہیں وہ عوام اور معاشرے کی وجہ سے بے اثر ہیں ۔