اب میکس ویبر کی پروٹیسٹنٹ اخلاقیات کی بات کرتے ہیں‘ اگرچہ ہالینڈ اور انگلینڈ جیسے پروٹیسٹنٹ ممالک جدید دنیا کے پہلے خوشحال ممالک بنے لیکن انیسویں صدی میں کیتھولک فرانس نے بھی مالی خوشحالی حاصل کی اور آج کا کیتھولک اٹلی بھی خوشحال ہے۔ مشرقی ایشیا کی معاشی کامیابی بھی عیسائیت کی مرہون منت نہیں۔ اگر کوئی کہے انگلستان کی مقبوضہ کالونیاں مثلاً امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا خوشحال ہیں کیوں کہ وہ انگلستانی ثقافت کے زیر اثر تھیں تو پھر انگلستان کی دیگر کالونیاں مثلاً سیرالیون اور نائجیریا کیوں غریب ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی کہے کہ یورپی نسل و ثقافت والے ممالک مثلاً مغربی یورپ اور شمالی امریکہ خوشحال ہوتے ہیں تو پھر اسی یورپی نسل سے بھرے ہوئے ارجنٹینیا اور یوراگوئے کیوں پسماندہ ہیں۔ملکوں کی خوشحالی یا غربت پرعدم واقفیت کا مفروضہ بھی مقبول ہے جو کہتا ہے ہم یا ہمارے حکمران مالدار بننے کا نسخہ نہیں جانتے اور یہ کہ جن ممالک میں ”مارکیٹ معیشت“ ہو یعنی جہاں افراد اور کمپنیاں آزادی سے اپنی پسند کی مصنوعات اور خدمات پیدا، خرید اور فروخت کرسکتی ہوں وہ خوشحال ہوتے ہیں اور جہاں یہ حالات نہ ہوں، ”مارکیٹ ناکامیاں“ زیادہ ہوں اور ان کے حکمران حل نہیں جانتے یا غلط مشوروں پر چلتے ہیں وہ غریب رہ جاتے ہیں۔ گھانا برطانیہ سے آزاد ہوا تو اس کے حکمران کوامی نیکروماہ نے ملکی صنعتوں کوترقی دینے پر توجہ دی لیکن، کوامی کے مشیر برطانوی ماہر معاشیات ٹونی کیلک کے مطابق، جوتوں اور آموں کے جوس کی صنعتیں ایسی جگہوں پر قائم کی گئیں جہاں خام مال بھی نہ تھا اور نقل و حمل پر خرچہ بھی زیادہ تھا۔ اسے نوبل انعام یافتہ سر آرتھر لیوس اور کیلک جیسے ماہرین کے مشورے بھی دستیاب تھے اور وہ خود بھی جانتا تھا کہ یہ پالیسیاں ٹھیک نہیں لیکن اس نے اپنی سیاسی حمایت بڑھانے اور وہ اپنی غیرجمہوری حکومت برقرار رکھنے کیلئے ایسا کیا۔ یا گھانا ہی میں وزیراعظم کوفی بصرا نے انیس سو ستر میں غلط معاشی پالیسیاں نافذ کیں۔ ایسا اس نے ناسمجھی میں نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفاد اور طاقتور گروہوں کو خوش کرنے کیلئے کیا۔ پھر مالی بحران پیش آیا اور اسے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے پاس جانا پڑا جن کے”اچھے“ مشوروں اور اصلاحات کی وجہ سے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ پڑا تو بصرا کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے اور فوج نے اس کی حکومت برطرف کردی۔ گھانا جیسے ممالک غریب ہیں کیونکہ وہاں جن کے پاس طاقت ہے وہ ناسمجھی میں نہیں بلکہ دانستہ اپنے ذاتی، سیاسی اور گروہی مفاد میں ایسے فیصلے کرتے اور پالیسیاں بناتے ہیں جو عوام کی غربت اور حکمران طبقی کی خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔ امریکہ خوشحال ہے کیوں کہ اس کے حکمران اورگروہ مضبوط سیاسی اور معاشی اداروں کو جواب دہ ہیں۔ریاستیں خوشحال ہوتیہیں جب ان کے سیاسی اور معاشی ادارے انکلوزیو یعنی شمولیتی اور تکثیری ہوں اور ان میں کافی حد تک سیاسی مرکزیت بھی ہو تاکہ وہ اپنے فیصلے نافذ کرسکیں۔ اس کے برعکس جن قوموں کے ادارے ایکسٹریکٹیو یعنی استحصالی اور وسائل نچوڑنے والے ہوں اور وہاں سیاسی مرکزیت نہ ہو تو وہ ناکام رہ جاتی ہیں۔ تکثیری سیاسی ادارے سیاسی عمل میں وسیع شرکت، اختیارات کی تقسیم، قانون کی حکمرانی، امن و استحکام، باقاعدہ شفاف انتخابات، آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور سب کو یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بناتے اور حکمرانوں کی جانب سے اختیارات کے من مانے استعمال کو ناممکن بناتے ہیں۔تکثیری معاشی ادارے نجی ملکیت، غیر متعصب نظام قانون، معاہدے کرنے کی آزادی، پسند اور اہلیت کے مطابق پیشے کے انتخاب، جدید پیشہ ورانہ تعلیم اور ٹیکنالوجی تک یکساں رسائی، بچت، تجدید اور سرمایہ کاری کی ترغیب، معاشی عمل میں نئی کمپنیوں اور افراد کی شمولیت اور عوامی خدمات کی یکساں فراہمی کی ضمانت دیتے ہیں‘حکمران اپنے اختیارات کو ذاتی یا گروہی مفاد کیلئے استعمال نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ایڈیسن پیرو یا میکسیکو میں نہیں امریکہ میں نظر آتا ہے اور یہی بل گیٹس، سٹیو جوبز، جیف بزوس وغیرہ پیدا اور سینکڑوں ماہرین اور سائنسدانوں کو دنیا سے اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔ اس کے برعکس استحصالی معاشی وسیاسی اداروں میں کئی ایسے ہیرے چھپے رہ جاتے اور اپنی پسند اور قابلیت کے بجائے دوسرے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اگر معاشی ادارے تکثیری ہوں تو وہ”ورچووس سرکل“ یعنی صالح دائرے کی وجہ سے سیاسی تکثیری اداروں کو مضبوط بناتے ہیں۔ تکثیری سیاسی ادارے اختیارات پر پابندیاں لگا کر ان کے غلط استعمال کو مشکل بناتے اور یوں سیاسی عہدوں کو غیر نفع بخش بنا دیتے ہیں۔ دوسری طرف استحصالی طبقہ اپنے خلاف جدوجہد کرنے والوں پر تشدد بھی نہیں کرسکتا کیونکہ ادارے اور قانون اس کا راستہ روکتے ہیں چنانچہ معاشی ادارے تکثیری بنتے جاتے ہیں۔ استحصالی معاشی اور سیاسی ادارے بھی اسی طرح ویشیئس سرکل یا شیطانی دائرے کے تحت ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں‘ سیاسی استحصالی اداروں میں اختیارات چند افراد کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جن پر کوئی پابندیاں نہیں ہوتیں اصل دیرپا ترقی اور خوشحالی تکثیری سیاسی اور معاشی اداروں میں ہوتی ہے مگر جن ممالک میں امن و استحکام ہو، کافی حد تک سیاسی مرکزیت ہو یعنی حکو مت کی رٹ قائم ہو، چاہے وہاں سیاسی و معاشی ادارے کم تکثیری ہوں یا بالکل ہی استحصالی ہوں، وہاں بھی ترقی ہوجاتی ہے جیسے سابقہ روس اور موجودہ چین۔ تاہم یہ ترقی پائیدار نہیں ہوتی۔ مثلاً روس انیس سو ستر تک ترقی کرتا رہا لیکن پھر معاشی نمو رک گئی۔ چین نے سیاسی مرکزیت اور استحکام کی وجہ سے ترقی کی ہے مگرچونکہ وہاں ادارے غیر تکشیری ہیں اس لیے یہ معاشی نمو بھی عارضی ہے‘مگر یہ کہ چین بھی تکثیری ادارے اختیار کرے۔