المیہ یہ ہے کہ قانون ساز خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قانون کا اطلاق ہمیشہ حزب اختلاف پر ہوتا دکھائی دیتا ہے اور ایسی مثالیں اگرچہ موجود ہیں لیکن بہت ہی کم ہیں کہ کسی حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنما کی حسب قانون گرفت ہوئی ہو۔ سیاست چونکہ خسارے کا سودا نہیں اور اِس سے تعلق رکھنے والوں کی عملی زندگی کی 2 حالتیں ہوتی ہیں کہ وہ حکمراں یا پھر حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہیں اِس لئے دونوں صورتوں میں انہیں قانون سے استثنیٰ رہتا ہے اور یہ استثنیٰ اگرچہ قانونی نہیں لیکن اِس کی موجودگی سے کوئی انکار بھی نہیں کرتا۔ رواں ہفتے کی تین اہم خبروں میں پاک فوج کے سربراہ کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو طلب کرنا‘ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں طلب کرنا ہے۔ اُمید ہے کہ وہ نیب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یکم اکتوبر کے روز پیش ہوں گے تاہم جمعیت کی طرف سے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ اُنہیں نیب کی جانب سے ایسا کوئی بھی نوٹس نہیں ملا اور یہ بد نیتی پر مبنی ڈھنڈورا ذرائع ابلاغ کے ذریعے پیٹا جا رہا ہے۔ مذکورہ نوٹس کے جاری ہونے کے بعد مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور بظاہر تجزیہ کار اس نوٹس کے جاری کرنے کے وقت (ٹائمنگ) کو زیادہ اہم سمجھ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان کی تقریر میں ان کا سخت مؤقف ہے۔حسب توقع آل پارٹیز کانفرنس کے بعد سیاسی ہلچل پیدا ہوئی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے تقریروں سے صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ عسکری قائدین سے بھی تعلقات میں بھی تناؤ پیدا ہوا ہے۔ بظاہر قومی احتساب بیورو کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سابق رکن قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمان اور دیگر کو بد عنوانی کے الزام کے بارے میں انکوائری کے لئے طلب کیا جاتا ہے۔ اس نوٹس میں انہیں قومی احتساب بیورو پشاور کے دفتر میں یکم اکتوبر کو حاضر ہونے کے لئے کہا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ انکوائری آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام پر کی جا رہیہے۔ کراچی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ”نوٹس نہیں ملا“ لیکن ذرائع ابلاغ کو پہلے ہی علم ہو چکا ہے تو اِس سے نیب کی کارکردگی پر سوال اُٹھ رہے ہیں کہ اگر ایسا کوئی نوٹس جاری کیا گیا ہے تو اُس کی اطلاع ذرائع ابلاغ سے قبل طلب کئے گئے فریق (مولانا فضل الرحمن) کو ہونی چاہئے تھی۔ جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ”بدنیتی پر مبنی ’احتسابی حربوں‘ سے وہ نہ پہلے ڈرے ہیں اور نہ ہی آئندہ خوفزدہ ہوں گے بلکہ ایسے نوٹسز کی اہمیت مچھر کی بھنبھناہٹ کے زیادہ نہیں! پاکستان کی سیاست میں جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اگرچہ اُن کی قومی و صوبائی اسمبلی میں موجودگی نشستوں کی تعداد سے کم ہو لیکن پاکستان میں سیاست کو سمجھنے والے چند سرکردہ رہنماؤں میں فضل الرحمن کا شمار ہوتا ہے اور اُنہیں جس قسم کی عوامی حمایت حاصل ہے وہ کارکنوں کا اُن سے ”عشق“ ہے۔ گذشتہ سال نومبر ’آزادی مارچ‘ کے عنوان سے اسلام آباد میں اُن کا دھرنا انتہائی منظم تھا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی وارفتگی نہیں دیکھی گئی کہ کارکنوں نے دن رات کھلے آسمان تلے صعوبتیں برداشت نہیں لیکن وہ اُس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہلے جب تک مولانا فضل الرحمن نے اُنہیں ایسا کرنے کو نہیں کہا۔ جہاں تک نیب کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کا تعلق ہے تو اگر یہ کل جماعتی کانفرنس سے قبل کیا جاتا تو مشکوک نہ ہوتا لیکن کل جماعتی کانفرنس کے فوراً بعد اِس قسم کا نوٹس شکوک و شبہات میں اضافہ کرتا ہے کہ احتساب کا عمل انتقامی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات رکھنے والے مولانا فضل الرحمن تن تنہا رہنما نہیں بلکہ ایسے کردار ہر سیاسی جماعت میں مل جاتے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی لغت میں سیاست دان کہتے ہی اُس شخص کو ہیں جن کے اثاثے اُس کی آمدن سے زائد ہوں۔ مولانا فضل الرحمن کی نیب کے سامنے پیشی اور اُن کی ممکنہ گرفتاری امن و امان کا مسئلہ پیدا کرے گی جمعیت علمائے اسلام کے کارکن کسی بھی سیاسی جماعت سے قطعی مختلف نفسیات رکھتے ہیں‘ اِس لئے ایسی کسی بھی مہم جوئی سے گریز کرتے ہوئے اگر نیب حکام کے پاس ایسے کوئی ثبوت یا اطلاعات موجود ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے اثاثے اُن کی معلوم (ظاہر کردہ) آمدنی سے زیادہ ہیں تو اُن کے بارے میں سوالنامہ بنا کر بھیجا جائے اور اُن سوالات کے جواب بذریعہ وکیل طلب کئے جانے چاہیئں تاکہ احتساب کے عمل کو مشکوک بنا کر پیش نہ کیا جائے۔