ٹوٹی پھوٹی سڑکیں

اصل میں ان کی مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ ان کے پاس ہمارے لئے وقت ہی نہیں رہا۔ان کے پاس اتنی فرصت بھی نہیں کہ یہ نیچے زمین ہی کو دیکھیں۔ یہ تو بس اوپر ہی اوپر دیکھتے جاتے ہیں۔آپ پورے شہر میں گھوم جائیں مجال ہے کہ آپ کو کوئی سڑک صحیح و سلامت ملے۔کہیں گڑھے ہیں اور کہیں چٹان ہے کہیں  اٹھان ہے کہیں سلوپ ہے کہیں ڈھلوان ہے۔کوئی راستہ جو بچ جاتا ہے وہاں تجاوزات ہیں۔ کسی کل قرار نہیں۔ گھر سے نکلو تو سر جھٹک جھٹک کر دکھ جائے گا گھر لوٹو تو سردردی لے کر آنا ہوگا۔کیونکہ اپنا شہر ہے یہاں کسی کام سے دوبارہ جانا ہوگا۔یہ روزکا جھنجھٹ ہے ”اک روز کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے۔ ہر روز کے رونے کو کہاں سے جگر آئے“۔بلدیات کا معاملہ بھی ٹھنڈا ٹھار پڑا ہے۔ان کے ووٹ بھی پڑیں توکہیں یہ لوگ میدانِ عمل میں آئیں اور ذمہ داری قبول کریں۔ پھرکہیں تعمیری کام ہونا شروع ہو جائیں۔ سڑکوں کو تو انھوں نے یوں چھوڑا ہوا ہے جیسے ان سے ان کا کوئی سیاستی اور حکومتی اور انتظامی رشتہ ہی نہیں ہے۔سڑکیں جو پہلے بنی تھیں وہ پھر سے خراب ہو گئی ہے۔ ناقص میٹریل لگا تھا اس لئے ورنہ تو اچھا مسالہ لگا ہو تو سڑکیں جلد ناکارہ نہیں ہوتیں۔ذرا سا بارش ہو جائے تو ان سڑکوں کا سیمنٹ تارکول سب اکھڑ جاتا ہے۔ ان راستوں پر اگر یہ لوگ متوجہ ہوں تو ان کوٹھیک کیا جائے۔مگر ایسا ہو اور ہمارے ہاں ہو۔ ایساہمارے یہاں نہیں ہوتا۔پورا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہاہے”وہ ایک شخص جو معمار نظر آتا ہے۔شہر کا شہر ہی مسمار نظر آتا ہے“(غلام محمد قاصر)۔ٹیلی فون کے لئے اور گیس کے پائپ بچھانے کے لئے یہ لوگ کھدائی کرنے کے لئے ایک بار جو آئے تو پائپ بچھا کر یوں غائب ہوئے جیسے انھوں نے کھڈوں کی بھرائی جیب میں رقم ادا کر کے کروانی ہے۔گلی کوچے ان کے ہاتھوں بربادہیں۔ پھر ایک مہینہ دو مہینو ں پرانی بات نہیں۔کھڈے کھود کر جو ملبہ گرایا وہ آڑھا ترچھا گرایا اور ٹیلے وجود میں آگئے۔و ہ جو سڑک ہموار تھی وہ ایک خواب بن کر رہ گئی۔ کہیں سال پہلے کی بات ہے اور کہیں دوسال قبل کے کھنڈرات ہیں اورسات سال پرانے آثارِ قدیمہ کے آثا رہیں۔ سڑکیں خراب کرناتو ان کو آتا ہے مگر سڑکوں کو پھر سے یہ لوگ ہموار کرنا بھول جاتے ہیں۔مجھ سے پوچھیں تو آپ کو میں انگلیوں پر گن کر بتلاسکتا ہوں کہ شہر میں کس کس مقام پر یہ کندہ کاری کی گئی ہے۔جیسے معمار کی خدمات نہیں لی گئیں گور کن کی محنت سے جگہ جگہ گڑھے کھودے گئے۔شہر میں کوئی مقام ایسا نہ ہوگا کہ جو رواں دواں ٹریفک کے لئے آئیڈل ہو۔ ہر جگہ یہی شاخسانہ ہے اور یہی شاخسار ہے جہاں جھنڈکے جھنڈ گڑھوں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے چاروں اور پھیلے پڑے ہیں۔ جن کی بھرائی کرنا یہ لوگ بھولے تو ایسے بھولے جیسے ان کو کبھی کچھ یاد ہی نہ تھا جیسے یہ ان سڑکوں پر سے کبھی گزرے ہی نہیں۔ جیسے ان سڑکوں کی معلومات ان کے ذہن نشین ہی نہیں ہیں۔برباد کرنے والے بہت ہیں اور آبادکاری کرنے والے کم کم ہیں۔ ان اداروں کاآپس میں تعاون اور کوآرڈی نیشن ہی نہیں۔ ایک کو ایک کا پتا ہی نہیں کہ فلاں ادارے والے کہاں کام کر رہے ہیں۔ بلکہ اتنا بھی پتا نہیں کہ اس ادارے کے دفاتر کہاں واقع ہیں۔ ان اداروں میں ایک ربط ہونا چاہئے خواہ گیس کا محکمہ ہے یا ٹیلی فون کا محکمہ ہے یا بجلی کا۔ جہاں سڑکوں اور گلی کوچوں میں کھدائی کا معاملہ ہے وہاں اگر لائنیں بچھانے کا کام مکمل ہو جائے تو تعمیری شعبہ کو اطلاع ہو اور وہ آکر تباہ ہوجانے والی سڑک کو دوبارہ سے آباد کردیں۔ تاکہ اس پر رواں دواں ٹریفک کے ہوتے ہوئے کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔ مگر یہ آپس میں ایک ہی رسے کے بندھے ہیں۔ وہ اس لئے کہ زیادہ سمجھدار کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بھی کسی کی نہیں سنتا اور ناسمجھ کے بارے میں بھی یہی مقولہ ہے کہ وہ بھی کسی کے آکھے میں نہیں۔سو المیہ ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے لوگوں کی آنکھیں تو ہیں مگر کان نہیں ہیں۔ آنکھیں ہوں بھی تو کیا کہ یہ لوگ اوپر دیکھنے کے عادی ہیں اور نیچے اور پھر اپنے گریبان میں جونہیں دیکھتے۔ پھر اگر کان بھی ہیں تو اس میں سماعت ہی نہیں۔ ان کوآواز ہی نہیں آتی۔جیسی یونہی خانہ پری کے لئے سروں کے آس پاس کانوں کو رکھ کر میخیں گاڑھ دی گئی ہیں۔