تیسرا وار

اِنفرادی حیثیت میں کسی گھر کی اِکائی ہو یا اِجتماعی حیثیت میں کوئی ملک‘ جب تک اِس کے باشندوں میں ایک دوسرے کے بارے میں سوچتے ہوئے برداشت کا عنصر غالب نہیں ہوگا‘ اُس وقت تک اِطمینان کا دور دورہ ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کو صرف اصلاحات ہی نہیں کرنی بلکہ اُن کی ذمہ داریوں میں اِس بات کا بھی اضافہ ہو گیا ہے کہ حزب اختلاف کی تحریک کے سرگرم ہونے سے پہلے اِسے ناکام بنایا جائے لیکن بنیادی ضرورت اِس بات کی ہے کہ ماضی و حال کی طرح عام انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگانے والوں کے پاس اگر دستاویزی ثبوت نہیں اور وہ زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں تو ایسا کرنے سے گریز کریں اور اگر اِس بارے میں قومی اتفاق رائے نہیں ہوتا تو مستقبل بھی زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوگا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا پہلا وار ’عمران خان‘ کو مائنس کرنے کے تذکرے سے ہوا۔ دوسر وار اُن کے خلاف عدم اعتماد لانے کی کوشش اور نئے عام انتخابات کے مطالبات کی صورت سامنے آئے اور ہر محاذ پر ناکامی کے بعد تیسرا وار متحدہ محاذ ہے۔ قائدین کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ عمران خان بدعنوانی کا خاتمے اور احتساب چاہتا ہے اِس لئے حزب اختلاف کے اکثر رہنماﺅں پر بدعنوانی کے مقدمات ہیں لہٰذا عمران خان ان کےلئے ناقابل قبول ہیں۔ اپوزیشن کے حوالے سے حکومتی شخصیات کا جو بھی موقف ہو‘ عمران خان ان کے لئے کسی بھی وجہ سے قبول نہ ہوں اگر وہ ان کو صدر‘ سپیکر‘ چیئرمین سینٹ‘ گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کو ہٹانا چاہیں تو اس کا آئین میں طریقہ¿ کار طے کر دیا گیا ہے۔ وہی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی حزب اختلاف عددی اعتبار سے طاقتور اور فیصلہ کن برتری رکھتی ہے۔ مرکز اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تحریک انصاف نے حکومتیں اتحادیوں کی مدد سے بنائی گئی ہیں‘ ہر دو مقامات پر حکومت اور اپوزیشن کی عددی تعداد میں انیس بیس کا فرق ہے اپوزیشن نے عدم اعتماد کو بھی آپشنز میں شامل کیا ہے۔ اسمبلیوں سے استعفے بھی دینے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں استعفے آنے پر گو حکومت کی طرف سے ضمنی انتخابات کرانے کا کہا جا رہا ہے مگر یہ اتنا آسان نہیں ہو سکتا۔ استعفوں کی صورت میں سندھ سے پیپلز پارٹی کی حکومت بھی جاتی رہے گی جو ’پی ڈی ایم‘ کی ایک طاقتور جماعت ہے۔ کیا وہ اقتدار سے تہی دست ہونا قبول کر لے گی؟ کشتیاں جلانے کی بات ہو تو شاید وہ استعفوں کے معاملے میں ہراول دستہ بن جائے۔ پیپلز پارٹی عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف آخری حد تک جا سکتی ہے مگر ان کے عمومی رویئے جمہوریت کی عملداری کے خلاف ہرگز نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی اس کریڈٹ کی بجاطور پر حقدار ہے۔کچھ جماعتوں کا طرزِ عمل ذرا مختلف نظر آتا ہے۔ بعض تو کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے“ کے روئیوں کا اظہار کر رہے ہیں یہ جمہوریت کے شجر کی اس شاخ کو کاٹنے کے مترادف ہو گا جس پر اِن کا اپنا آشیانہ (گزربسر) بھی ہے۔ گیارہ جماعتی اتحاد میں ایسی جماعتیں بھی ہیں جن کی پارلیمنٹ کی نمائندگی ہی نہیں ہے وہ حکومت سے نجات کے لئے زیادہ پرجوش ہیں ۔ حکومت کے خاتمے کے قانونی اور آئینی طریقے اختیار کرنے میں کسی کو اعتراض ہو گا نہ اس کا حرج ہے اور نہ ہی اس سے جمہوریت پر کوئی زد پڑے گی۔ آج حکومت اوراپوزیشن کے مابین بلیم گیم‘ الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاستی ادارے احتساب کے معاملے میں قانونی راستہ اپنائے ہوئے ہیں‘ جس کی زد میں زیادہ تر حکومت مخالف لوگ آئے ہیں اس پر حزب اختلاف کو بلاامتیاز احتساب کے تحفظات کے اظہار کا موقع مل رہا ہے۔ محض توازن کی خاطر حکومتی لوگوں کو نہیں پکڑا جا سکتا۔ غیر جانبدارانہ احتساب کا اولین تقاضا بلاامتیاز احتساب ہے اس حوالے سے جہاں کہیں خلا اور سقم ہے وہ دور کرنا خود حکومت کی ساکھ کے لئے بہتر ہے۔