ہماری صفائی کی حالت

سوچتا ہوں کون کون سا نیا مضمون شاملِ نصاب کیا جائے گا۔ جو لگا بندھا نصاب ہے وہی پڑھایا جاتا ہے ۔جو نئے زمانے کے تقاضے ہیں وہ تو پورے نہیں رہے ۔یہ تو ویسے کے ویسے آنکھوں دھول جھونک رہے ہیں ۔نصاب کو نئے زمانے کی ضرورت کے مطابق ہونا چاہئے ۔ جو امور دہائیو ں سے نصاب میں شامل ہیں وہ ضروری ہیں۔ مگر دنیائے عالم میں نئے مسائل کی وجہ سے جو ہماری کھلی اڑ رہی ہے اس کا علاج ہونا چاہئے۔ اب ٹریفک کامضمون بھی شاملِ نصاب ہو۔ سوک سینس کو بھی کتابوں میں لانا ہے ۔تاکہ سکول کالج میں ہماری نئی نسل کو آگاہی ملے ۔مثلاً پولیو اگر ضروری ہے تو اس کو پرائمری یا مڈل کی سطح پر کتابوں میں ڈال دیں۔ اگر ٹریفک کے ہجوم میں ابتری ہے تو اس کی روک تھام کے لئے اس کو بچوں کے آگے کتابوں میں رکھیں۔ اس طرح وہ بچپن سے مزید اچھی باتیں سیکھیں۔ان کے ضمیر میںخمیریہ باتیں شامل ہو ں۔ مگرہم صرف ٹی وی پرمہم چلا کر سمجھتے ہیں کہ اپنا فرض پورا کر لیا ۔کیلنڈر سال میں جو عالمی دن ہیں ان میں جو انتہائی ضروری ہیں ان کونصاب میں شامل کر دیں۔ اس سے بچوں کو رہنمائی ملے ۔اب اگر کورونا شامل نصاب نہیں کرتے تو متعدی بیماریوں کے موضوع پر کوئی درس ہونا چاہئے ۔اس میں جہا ںاور بیماریوں کا ذکر ہو وہاں کورونا سے بچا¶ کی تدابیر بھی شامل ہوں ۔ کیونکہ اب تو ہم نے کورونا کے ساتھ ساتھ چل کر زندگی گزارنا ہے ۔یہ اتنی آسانی سے جانے والا نہیں۔یہ جاتے جاتے مڑ آتا ہے اور مڑ مڑ کر وار کرتا ہے ۔یہ وائرس آیا تو سہولت سے۔مگر اب تک اس کی ویکسین ہی تیار نہیں ہوئی ۔ اگر دوا موجود ہو توتب بھی اس نامراد بیماری کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کےلئے بچوں کو شروع کی زندگی میں درس دینا ہوگا۔گند ڈالنا تو ہماری فطرت میں شامل ہو چکا ہے۔اب عالمی سطح پر ہماری بدنامی کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہاہے ۔ارضِ وطن میں پشاور اور کراچی کو ٹاپ کے دس گندے ترین شہروں میںجگہ دی گئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ ہمارے اپنے رویے ہیں۔ ہمارے لئے تو سڑک سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں جہاں کوڑا کرکٹ پھینک سکیں۔ دکاندار ہیں تو اپنی دکان میں سے گند باہر سڑک پر گرا دیں گے۔ کسی نے دکان کے اندر چھلی کھائی تو اس کا تُکا اٹھا کر بلکہ پھینک کر سڑک پر دے مارا۔ کیونکہ آج کل ریتی کے سٹے بہت پسند کئے جا رہے ہیں جو لاہوری دروازے کے باہر سے ہتھ گاڑیوں کی گرما گرم ریت میں ڈالے جاتے ہیں اور پھر گاڑی بان پورے شہر میں لے جاتے ہیں۔ یہ دوپہر ڈھلے ختم ہو جاتے ہیں۔ بازاروں میں دکانداروں کے رویے کو اچھا نہیں کہا جا سکتا ۔زیادہ تر دکاندار گند کے لئے اپنی دکان میں کوئی ٹوکری نہیں رکھتے۔ صبح آ کر جھاڑو لگائیں گے اور گند دکان کے آگے کسی اونچی نیچی جگہ پرپھینک دیں گے۔ان کو چاہئے کہ یہی گند شاپر میں ڈال کر ایک طرف رکھ دیں ۔ جہاں صفائی کاسرکاری عملہ آئے تو شاپر اٹھا لے ۔ کیونکہ اگر آپ نے جھاڑو دی توتیز جاتی گاڑیوں کی وجہ سے ہوا کے زور پر یہ گند پھر سے یہاں وہاں پھیل جائے گا۔ جس کے نتیجے میں عملہ ¿ صفائی کو اضافی محنت کرنا پڑے گی۔ مگر ہم لوگ سوک سینس سے واقفیت نہیں رکھتے۔ نصاب میں یہ مضمون بھی ہو کہ اپنی چیزوں کو نقصان پہنچانا احمقوں کا کام ہے ۔ اگر بی آرٹی میںبیٹھیں تو اس کی خوبصورت سیٹوں کو چاقو سے دو ٹکڑے کرنا ٹھیک نہیں ۔ لگتا تو ہے یہ حکومت کانقصان ہے مگر غور فرمائیں تو ہمارے بجٹ میں جو پیسے ہمارے لئے رکھے جاتے ہیں ۔ یہ نقصان وہاںسے کٹوتی کر کے پورا کیا جاتا ہے۔ جتنی جتنی آبادی زیادہ ہو رہی ہے آپ کو گند میں بھی اضافہ ملے گا۔ صفائی کے عملے کا تو جھاڑو لگا لگا کر ناک میں دم ہو چکاہے ۔مگر گند ڈالنے والے چلتی گاڑی کی کھڑکی کا شیشہ اتار کر کیلوں کے چھلکوں کو عین شاہراہ کے بیچ پھینک دیں گے۔ بلکہ اگر گھر میں بچوں کو تربیت دی جائے کہ بیٹا تم نے جو ٹافی کھائی اس کا رنگین کاغذ کمرے میں پھینکا ہے ۔ اس کو باسکٹ میں پھینکتے ہیں۔ اس طرح کی اوپرنیچے ہدایات کی وجہ سے بچوں کے ذہن نشین ہو جائے گاکہ ہم نے گند کو ایک طرف کر کے باسکٹ میں پھینکنا ہے۔ بائیک پر جاتے ہوئے اگر پیچھے بیٹھی ہوئی میری بچی جوس کا ڈبہ پی رہی ہے تو اس کو پتا ہوتا ہے کہ اس کو سڑک پر نہیں گرانا۔ کیونکہ میں نے اس کو گاہے گاہے ہدایات جاری کی ہوئی ہیں ۔جوس پی کر وہ مجھ سے پوچھتی ہے اس خالی ڈبے کوکہاں گرانا ہے میںاسے کہتا ہوں اک ذرا ٹھہر جا¶۔ وہ یہ ڈبہ ہاتھ میں لئے بیٹھی رہتی ہے ۔جہاں کوڑے کا ڈھیر وغیرہ نظر آتا ہے ۔وہاں میں خود اس سے یہ جوس کا خالی ڈبہ لے کر ہوا کے گھوڑے پر سے پھینک دیتا ہوں۔ہمارا تو صفائی کے معاملے میں رویہ سو میں صفر نمبر کے برابر ہے۔ہمیں بچوں کی تربیت کرنا ہے۔