اگر بچوں نے جھولے جھولنے ہوں تو انھیں کہیں دور کسی پارک میں نہ لے جائیں۔ آپ شہر کے اندر کے رہنے والے ہیں تو آئیں اور سپلائی روڈ پر جو گل بہار تھانے کے سامنے جی ٹی روڈ کو کراس کرتی ہے وہاں جھولے دلا دیں۔یہ نہ سوچیں جھولا کون جھلائے۔ وہاں آٹو میٹک جھولے ہیں۔ اگر آپ دو پہیہ گاڑی میں ہیں تووہ اتنی اوپر نیچے جائے گی کہ آپ خود اپنی سواری کو چاند گاڑی کہیں گے۔اگر تین پہیوں والے رکشے یا چنگ چی میں سوار ہیں تو جھولے کا اور ہی مزا آئے گا ۔ کیونکہ یہ ڈرائیور بھی کوشش کر کے رکشہ تیز چلاتے ہیں ۔ پھر آگے پیچھے دیکھناتو ان کے اصول میں شامل نہیں ۔ اس روڈ پر اگر آپ رکشے میں بھی ہوں تو بچوں کو خوب مزا آئے گا۔کیوں فضول کے پیسے تباہ کریں ۔جوآس پاس رہتے ہیں اس مقام پر اپنے بچوں کے جھولے لینے کی خواہش کو پورا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ یہا ںاس سڑک پر خاص ریلوے کراسنگ پر اتنی اونچ نیچ ہے کہ بندہ اچھا خاصا جھول جاتا ہے ۔تھوڑاآگے جائیںتو وہ گڑھے ہیں کہ کھائیاں بھول جائیں۔ ان گڑھوں میں وہ پانی جمع ہوتا وہ بیماریاں بندے کو گھیرتی ہیں کہ ان کے نرغے سے اگر کوئی بچے تو تب جا کر کہیں کورونا کاشکار ہو ۔یہ سڑک تو جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ایک بار دوبارہ سے تعمیر ہوئی ۔ اس سے پہلے تو اس کی وہ بری حالت تھی کہ اب نئی سڑک کے خراب ہونے کے بعد لگتا ہے کہ اس کی تعمیر و مرمت تو سرے سے ہوئی نہیں ۔سڑک کی پہلی بار مرمت ہو جانے کے بعد میں رکشہ میںجا رہاتھا ۔سفید ریش رکشہ ڈرائیور تھا۔ پوچھا یہ سڑک کب سے خراب ہے ۔ اس نے کہا جب سے میں نے اس سڑک پر آنا جانا شروع کیابرسوںبیت گئے اس کو یونہی برے حالوں دیکھا ہے ۔پھر چند سالو ں پہلے سڑک کی تعمیر و مرمت ہوئی تھی ۔ تب سڑک دیکھنے کے قابل تھی۔ بلکہ سوار ہو کر اس پر جانا بہت مزا دیتا تھا۔جانا تو کیا آنااس سے زیادہ پر لطف تھا۔ آ¶ جا¶ یہی کام کرتے جا¶ ۔ اب چند سالوں کے بعد اس سڑک کی وہ بری حالت ہے کہ توبہ توبہ ۔ توبہ اس لئے کہ خدا ہمیں اس طرح کے افسروںاور ٹھیکیداروں بچائے۔ جنھوں نے ناقص میٹریل لگا کر اس سڑک کی تعمیر کی ۔بچی میرے ساتھ تھی ۔میں نے بائیک پر مڑ کراس سے کہا کہ بیٹاکسی پارک میں جانے کی ضرورت نہیں یہیں جھولے لے لو۔ دیکھو میں بھی اچھل رہاہوں۔ وہ ہنسنے لگی ۔بلکہ اگر آپ شہر کے اندر بڑے بازار میں کہیں رہائش پذیر ہیں تو موٹر سائیکل پر بچوں کوبٹھائیں اور محلہ سیٹھیان کے اندر گھس جائیں ۔ یہ وہ علاقہ ہے جس کی تعریف پوری دنیا میں مصنوعی طور پرکی جا رہی ہے ۔کیونکہ یہیں پشاور کی قدیم ثقافت والے گھر دائیں بائیں موجود ہیں ۔بلکہ یہاں تو ایک میوزم بھی بنا ہے اور دو ایک تاریخی گھروں کو حکومت نے خرید کر اس کی سیر کے لئے دعوتِ عام دے رکھی ہے ۔سال پہلے اسی گلی میں ایک پاکستانی فلم کی شوٹنگ بھی ہوئی تھی۔ ماہرہ خان اور فلمسٹار ندیم کو بھی ہم نے یہاں دیکھا ۔بلکہ میں تو اسی گلی میںندیم جیسے زبردست فنکار سے ملا ۔ یہاں تک تو راستہ صاف ہے ۔تھوڑا اوپر چاہ سیخان کو جائیں تو تنگ و تاریک گلی میں جانے کس محکمے نے کھدائی کی ہے ۔ طویل اوپر جاتی ہوئی گلی کو اکھاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ بخیے ادھیڑ دیئے ہیں ۔ پھر اس بات کو بھی تو کم از کم سال ہونے لگا ہے ۔یہ کھدائی کس نے کی یا تو سوئی گیس والو ںکی کارستانی ہے یا پھر ٹیلیفون محکمے کی شرارت ہے ۔ مگر افسو س ان محکموں کو پورے شہر میں کھدائی کر کے بھرائی بھول جاتی ہے ۔ان کی یاداشت ہماری طرح کمزور ہو چکی ہے۔ یا شاید چونکہ یہاں قدیم ثقافت ہے اس لئے ممکن ہے کہ یہاں محکمہ آثارِ قدیمہ نے کھدائی کر کے انگریزی فلموں کی طرح کوئی خزانہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہو۔ خزانہ تو نہ ملا ان کے ہاتھ مٹیوں سے بھر گئے۔مگر اب تو ان اونچی نیچی راہوں پر معذور اور کمزور بوڑھے افراد کا چڑھائی چڑھنا دوبھر ہے ۔کتنوں کے پا¶ں پلٹ گئے اور ان کو موچ آئی ۔ کیونکہ یہ جنگل تو نہیں صحرا تو نہیں کہ یہاں کوئی رہتا نہ ہو۔ یہ تو گھنی آبادی کا علاقہ ہے ۔ یہاں کے رہائشیوں کو رکشہ لینے اور کسی مریض کو ایمبولنس میں ڈالنے کے لئے ان گڑھوں اور ٹیلوں کے اوپر سے ہوکر نیچے بازارِ کلاں مین سڑک پر آناپڑتا ہے ۔اس قسم کی سڑکوںکی تعمیر کا کچھ کریں کیونکہ اس قسم کی سڑکیں تو شہر میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے جن پر اس قسم کی کھدائی ہو چکی ہے اور بھرائی نہیں ہوئی ۔پورا شہر ملبہ کا ڈھیر نظر آتا ہے اور لگتا ہے پورے شہر میں زمینیں کھود کر خزانہ تلاش کیا جا رہاہے ۔عالمی بینکو ںکے قرضوں کی قسطیں دینے کے لئے اپنی کمائی تو کچھ نہیں سو اب خزانوں کی تلاش کے لئے شہر کی گلیوں کوچوں اورسڑکوں کوالٹ پلٹ کیا جا رہاہے ۔ غلام محمد قاصر کا شعر یاد آ رہا ہے ” وہ ایک شخص جو معمار نظر آتا ہے۔ شہر کا شہر ہی مسمار نظر آتا ہے “۔اب یہ تعمیر ہے کہ تخریب ہے اس کافیصلہ آنا باقی ہے ۔