جارحانہ سیاست

سیاست پر جارحانہ رویئے حاوی ہیں۔ حزب اختلاف اپنی سیاست کھول کر میدان میں اُتر آئی ہے تو حزب اقتدار نے بھی ہر سیاسی بیان کے مندرجات پر غور شروع کر دیا ہے اور ابھی ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)‘ کا پہلا اجتماع عام بھی نہیں ہوا‘ جس میں گرما گرم تقاریر متوقع ہیں لیکن ایک ایسا مقدمہ درج ہوا ہے جس سے وفاقی حکومت نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے اور حزب اختلاف اُس ”آٹو پائلٹ“ کا نام جاننا چاہتی ہے جو ملک کو چلا رہا ہے! تشویشناک بات یہ ہے کہ حزب اختلاف کے رہنماو¿ں پر الزامات بڑھ رہے ہیں اور اِن انتہائی الزامات کا سلسلہ جاری رہا تو اِس سے جمہوریت کے لازمی جز یعنی ”آزادی اظہار“ پر سب سے زیادہ حرف آئے گا۔ اور وہ سبھی ”غیرجمہوری ناگوار القابات“ استعمال ہونے لگیں گے جن سے اجتناب جمہوریت کی مضبوطی اور فروغ کے لئے ضروری ہیں۔ پانچ اکتوبر کے روز نواز شریف کے خلاف قومی اداروں کو بدنام کرنے‘ ملک کے خلاف سازش اور بغاوت جیسے 10 الزامات کے تحت لاہور کے شاہدرہ تھانے میں مقدمہ درج ہوا۔ کسی بھی سیاسی یا غیرسیاسی شخص پر بغاوت یا ’ملک سے غداری‘ کا ’لیبل‘ چسپاں کرنا معمولی بات نہیں اورکیا ٹھوس شواہد کے بنا کسی بھی شخص کی سیاست اور ذات کو مشکوک بنایا جانا چاہئے جبکہ ”ٹھوس سیاق و سباق“ بھی موجود نہ ہوں ۔ سیاست میں برداشت اور سنجیدہ سرزنش کی ضرورت ہے کہ جذباتی نعروں اور بیانات کا جواب جذباتی انداز میں دینے کی بجائے ریاستی ادارے اپنے اختیارات کا غیرمحتاط استعمال نہ کریں۔ غیرمحتاط انداز میں غداری یا بغاوت کا الزام عائد کرنے سے معاملات بہتری کی بجائے خرابی کی جانب مائل ہوں گے ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جمہوریتیں بالغ اور عوامی مفاد میں کارآمد دکھائی دیتی ہیں‘ اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سیاسی احترام یا کم از کم سے رواداری کا مظاہرہ ہوتا ہے اور اُن ممالک کی قیادت نے آپسی اختلافات اور اختلاف رائے کو قبول کرنے جیسا ہنر سیکھ لیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کسی ریاست کو اپنی ذات میں اس قدر مضبوط ہونا چاہئے کہ اُس میں بغاوت یا ملک سے بے وفائی کرنے والوں کی گنجائش ہی نہ رہے بلکہ ایسا کرنے والوں کو بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں منہ کی کھانی پڑی۔ اِسی لئے ملک میں قانون اور قانون نافذ کرنے والے اِدارے ہوتے ہیں‘ جو اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے ایسے حالات ہی پیدا ہونے نہیں دیتے جو بغاوت کا باعث بنیں۔ المیہ ہے کہ سیاسی و سماجی سطح پر عدم برداشت اور عدم اتفاق عام ہے۔ اصولاً اگر کسی ایک چیز کے خلاف منظم انداز میں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تو وہ کریک ڈاو¿ن عدم برداشت اور عدم اتفاق کے خلاف ہونا چاہئے۔ ۔ اگر قومی سطح پر سیاسی اور سیاسی فیصلہ ساز یہ سمجھتے کہ مقدمات کے ذریعے حزب اختلاف کی تحریک میں شامل قائدین کو دبایا جا سکے گا تو یہ بھول ہے کیونکہ ایسی تحریکیں صرف ایک ہی صورت دم توڑ سکتی ہیں اگر وفاقی حکومت مہنگائی کی شرح کم کرنے کے لئے اقدامات کرے اور عام آدمی کو اِس بات کا یقین دلائے کہ وہ اِس کے مفادات کی ضامن و محافظ ہے۔ اتفاق رائے اور اختلاف رائے جمہوری سکے کے دو رخ ہوتے ہیں جن میں نفرت انگیزی اور شرانگیزی کی ملاوٹ کو روکنے کے لئے بات چیت کا ’سیاسی حربہ‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم کرنا مقصود ہے تو حکومت کو یہ اصول سمجھنا ہوگا کہ جمہوری نظام چاہے کتنا ہی خالص اور عوام کی حقیقی نمائندگی رکھتا ہوں لیکن ریاست کی تعمیروترقی اور قومی مسائل کا حل حزب اختلاف کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتے۔