تعلیم کی اہمیت

علم ایک لازوال دولت،کسی بھی قوم کے مستقبل کا قیمتی خزانہ اور خدا کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہے۔تعلیم سے انسان کی شخصیت اورروحانیت کی منازل طے ہوتی ہیں۔تعلیم یافتہ افراد مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں۔تعلیم سے ہی ہم اپنے تہذیبی ورثے،علمی روایات،ثقافتی زیور اور اعلیٰ اقدار کو نہ صرف سنبھال کر اس سے مستفید ہو سکتے ہیں بلکہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر مستقبل کے چیلنجز سے بھی عہدہ براءہو سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کو ہر دور میں مشق ستم بنایاجاتا رہاہے لیکن موجودہ حکومت جو تعلیم اور صحت کے دوبنیادی شعبوں میں اصلاحات کے بلند بانگ دعوﺅں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی سے پوری قوم کو یہ توقع تھی کہ اس کے دورحکومت میں تعلیم کے شعبے میں قوم کو انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی لیکن اس ضمن میں ہنوز دلی دور است کا محاورہ سو فیصد صادق آتا ہے۔ہمارے ہاں تعلیم کا شعبہ ویسے تو کئی مسائل سے دوچار ہے لیکن تعلیمی بجٹ میں کمی،اساتذہ کی مناسب تربیت کا بندوبست نہ ہونا،سرکاری تعلیمی اداروں کی ناگفتہ بہ حالت،فرسودہ اور غیر متعلقہ نصاب وہ نمایاںمسائل ہیں جنہیں ہمارے ملک کاایک بڑاالمیہ قراردیا جاسکتا ہے۔ہمارے نظام تعلیم کاایک دوسرا تاریک پہلو رٹاسسٹم ہے جس میںبچوں کورٹا لگوا کر مضامین یا دکرائے جاتے ہیں لیکن ان مضامین میں پنہاں اسباق و فلسفے پر زور نہیں دیاجاتااور نہ ہی پڑھائی میں مباحثے کو ترجیح دی جاتی ہے حالانکہ مباحثے سے بچوں کو اسباق و فلسفے سے متعلق معلومات ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے جو ایک جامع اورمتوازن شخصیت کی بنیادی ضرورت ہے۔مولانا عبیداللہ سندھی کا قول ہے کہ جب طالب علم کو بغیر سمجھے کسی بات کو ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس طرح کی مجبوری اس کی عادت بن جاتی ہے اور وہ زندگی میں ہر چیز بغیر سمجھے قبول کرنے لگتا ہے جو ذہنی غلامی اور ذلت کا باعث بنتا ہے۔ایک نظریاتی اسلامی مملکت میںجدید علوم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اخلاقیات کی تعلیم سے صالح اور نیک معاشرے کی تشکیل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح استاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبرّا ہو جائے بلکہ استاد وہ ہے جو شاگردوں کی خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور انہیں شعور اور ادراک،علم و آگہی نیز فکرو نظر کی دولت سے مالا مال کرے۔جو اساتذہ کرام اپنی ذمہ داری کو بہتر طریقے سے نبھاتے ہیں ان کے شاگرد آخری دم تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں بلندترین مقام پا کر دین اور دنیا میں سر بلندی اورترقی حاصل کی لیکن جب مسلمان تعلیم سے دور ہوئے تووہ اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ دریں اثناءپنجاب ٹیکسٹ بک بورڈکے سابق ایم ڈی رائے منظور ناصر نے ایک میڈیا چینل سے ملکی نظام تعلیم اور نصاب کے ساتھ کھلواڑ پرگفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن و حدیث پرکوئی سمجھوتا نہیں ہوگا‘ میری نوکری جاتی ہے تو چلی جائے‘ شدید غلطیوں کی وجہ سے 100 کتب پر پابندی عائد کی‘ یکساں قومی نصاب پر کوئی سنجیدہ کام نہیں ہو رہا ہے یہ عملاً ایک مشکل ٹاسک ہے۔ انہوںنے کہا کہ سرکاری سکولوں میں فراہم کی جانے والی کتب کی تیاری کےلئے معیاری اور سستے کاغذ کے استعمال کا منصوبہ بنایا تھا ۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق حال ہی میں500 میں سے 100 کتب میںشدید غلطیوں کی نشاندہی کے بعد ان کتب پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔ ان کتب میں پنجاب کے اضلاع، آبادی اور مردم شماری کے بارے میں غلط اعداد و شمار حتیٰ کہ ان کتب میں قائد اعظم ، علامہ اقبال، سرسید احمد خان اورمحترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں بھی غلط معلومات درج ہیں۔