خاموشی :علاج غم!

 المیہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 10 سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواتین کو سب سے زیادہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ‘ خواتین کےخلاف یہ سب جرائم ہمارے گردوپیش میں رونما ہو رہے ہیں لیکن یہ ہمیں اِس لئے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ اِس سے متاثر ہونے والے عام لوگ ہیں۔ جہاں کہیں کسی خاص گھرانے سے تعلق رکھنے والے کے دامن پر اِن انسانیت سوز جرائم کی چنگاری پڑتی ہے تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں میدان میں کود پڑتی ہیں اور مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دینے کا مطالبہ وہ فیصلہ ساز بھی کرنے لگتے ہیں‘ جنہیں اِن سزاو¿ں کو عملاً ممکن بنانا ہے۔ حکومت کا کام خواہشات کا اظہار نہیں ہوتا اور نہ ہی حکومت مطالبہ کرتی ہے لیکن اُس کے پاس قانون سازی کا فورم موجود ہے اور اگر معمولی تنازعات پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس اور ’کل جماعتی نشستیں‘ طلب کی جا سکتی ہیں تو خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے قانونی سقم دور کرنے اور سزائیں پر مختلف انداز سے عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے غوروخوض کیوں نہیں ہو سکتا؟زیادتی کے کسی الزام اور مقدمے کو درست ثابت کرنے کے لئے کم سے کم چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عدالتی کاروائی میں اِن گواہوں سے جرح ہو گی اور ایسے سوالات بھی پوچھے جائیں گے جو اِن کی نجی زندگی سے متعلق ہوں گے اِس لئے اکثر جرائم کے عینی شاہدین عدالتی کاروائی جیسی مہم جوئی سے گریز کرتے ہیں!دیکھا جائے تو زیادتی کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں اور جس قدر اس کے خلاف جذبات بھڑک رہے ہیںا س میں کمی کی بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ دیکھا جائے تو اس میں ہمارے معاشرتی روئیوں کو بڑا عمل دخل ہے کہ جہاں تربیت کے پہلو کو یکسر نظر اندازکیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ ایک گھر کی طرح ہوتا ہے جس میں اگر کسی کی عزت ، جان و مال محفوظ ہے تو ایک بڑی نعمت ہے او ر اگر حالات اس کے برعکس ہیں تو پھر یہ ایک اذیت ہے جس کاسامنا ہر فرد کو ہوتا ہے۔ آج ایک کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے تو کل کسی دوسرے کے ساتھ پیش آسکتا ہے۔ اس لئے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور شہری اور معاشر ے کے ذمہ دار فرد کے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، جہاں کوئی برائی ہے تو بغیر کسی رشتے اور ناطے کے لحاظ کے اس کاراستہ روکنا ضروری ہے۔ ایسی خبریں بھی آتی ہیں کہ اکثر واقعات میںملوث ملزمان کسی کے ہاں پناہ لئے ہوتے ہیں اور قانون سے چھپے رہتے ہیں اب جس کسی نے بھی پناہ دی ہے وہ بھی اسی معاشرے کافرد ہے اسی رویے سے ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والا قانون کی گرفت میں آنے سے بچا رہتا ہے اور اس میں کردار ان لوگوں کا ہوتاہے جو اس کے سہولت کار بن جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ہر کونے سے جنسی زیادتی کی ہولناک خبریں آنا ایک معمول بن چکا ہے اور اب تو قومی شاہراہیں بھی غیرمحفوظ ہیں۔ گزشتہ ماہ لاہور کے قریب موٹروے لنک روڈ اور راولپنڈی کے قریب گاو¿ں ٹیکسی ڈرائیور کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کی روداد زیادہ مختلف نہیں۔ حالیہ چند ہفتوں ہی کے دوران ایسے جرائم بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن میں پولیس والے ملوث تھے یا پھر خواتین کے اپنے قریبی رشتہ داروں نے اُنہیں ذہنی و جسمانی صدمے سے دوچار کیا۔ اِن جرائم کی روک تھام کے لئے تجویز کیا جا رہا ہے کہ جنسی زیادتی سے متعلق سزاو¿ں پر سرعام عمل درآمد کیا جائے اور دوسرا حل یہ ہے کہ خواتین اپنی عزت کی حفاظت اور خطرات کے پیش نظر احتیاط سے کام لیں اور گھر سے نکلنے سے قبل تمام پہلوو¿ں کو مدنظر رکھیں۔ لیکن یہاں مسئلہ ’غیرمحتاط طرزِعمل‘ کا نہیں بلکہ ذہنیت اور سماجی روئیوں کا ہے کیونکہ ایسے جرائم بھی رونما ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں جن میں خواتین گھر کی چاردیواری کے اندر رہتے ہوئے بھی محفوظ نہیں ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ انصاف کی متمنی عورت کو انصاف چاہئے۔ وہ اپنے خلاف امتیازی روئیوں‘ ذہنیت‘ سوچ اور جرائم کا خاتمہ چاہتی ہے۔ اپنے وجود کا اقرار چاہتی ہے کہ اُسے بھی دنیا کا حصہ اور زیادہ نہیں تو کم سے کم اِنسان ہی سمجھا جائے‘ جس کے جذبات و احساسات ہیں اور جو مرد ہی طرح ایک شخصیت و یکساں سماجی حیثیت کی بھی مالک ہے۔