وہ چیختی رہی چلاتی رہی مگر اس کی مدد کو کوئی تیار نہ تھا۔عین چوک کے بیچ اور سب کے سامنے اس کا یہ حشر میری طبیعت پر سخت ناگوارگذر رہا تھا۔ مگر میں اکیلا کیا کر سکتا تھا۔ کس کس کے سینے میں اپنا دل ڈال لیتا ۔میں تو یہ نظارا دیکھتا رہ گیا۔ مجال ہے کہ اس کی چیخ و پکار کی وجہ سے کسی کا دل نرم ہوا ہو۔وہی بے حسی جو پہلے تھی اب بھی اسی بے پروائی کا مظاہرہ کیاجا رہا تھا۔ گول چوک میں ٹریفک بلاک تھا ۔ہمارے ہاں کی ٹریفک بندش مصنوعی ہوتی ہے ۔قربان جا¶ں باہر کے معاشروں کے خوب رش ہوگا مگرگاڑیاں اپنی قطار سے باہر نہیں نکلیں گی۔رش ہوگا تو دوطرفہ راستے میں سے یک طرفہ ہوگا اور محدود محصورہوگا ۔باقی کا دوسرا کھلاہوگا ۔مگر ہمارے ہاںتو دو طرف راستوں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے یہ لوگ ٹریفک کو اتناآڑھا ترچھاکر دیتے ہیں کہ وہاں تو سانس لینابھی سزا لگتاہے ۔گھنٹوں ٹریفک کی بندش برقرار رہتی ہے ۔ ایسے میں ٹریفک سارجنٹ کا بھی بس نہیں چلتا کہ وہ کچھ کر سکنے کے قابل ہو۔ وہ بیچارا اس ہنگام میں شور کرتا سیٹیاں بجاتا رہ جاتا ہے۔وہاں ایمبولنس میں مریض کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ زندگی کی بازی پر اپنی جان بچا لے۔کتنی تو خواتین نے ایمبولنس میں بچوں کو جنم دیا ہے اور کتنوں کے گھر میں اولاد رکشہ کے اندررکے ہوئے ٹریفک رش میں پیدا ہوئی ہے ۔مگر ہماری بے حسی ہے کہ بڑھتی چلی جارہی ہے۔۔اگر کسی مریض پر ہارٹ اٹیک آیا ہے تو اس کے پاس آدھا گھنٹہ ہو تا ہے کہ وہ اس دوران میں اگر ایمبولنس کے اندر اپنے آپ کو زندگی کی طرف لے جائے۔لوگ اپنامزے سے کارچلا رہے ہوتے ہیں۔ ان کی تو بلا کو بھی پروا نہیں ہوتی ۔ ان کی بلا سے اگر کوئی جان سے جاتا ہے تو جائے۔ہمارے معاشرے میں یہ تمیز ہمیں سکھائی ہی نہیں گئی کہ ایمبولنس بھی آخر کسی چیز کا نام ہے ۔ اس کا بھی سڑک پر اتنا حق ہے جتنا دوسری گاڑیوں کا ہے ۔مگر اس کا حق کچھ زیادہے ۔ کیونکہ اس میں جاں بلب مریض پڑے دم توڑنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ان کو ہسپتال لے جاکر ہنگامی ٹریٹمنٹ دے کر موت کے منہ سے بچانا ہوتا ہے۔مگر اکثریہ ہوتا ہے کہ ایمرجنسی والا مریض ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ دیتا ہے۔آخر ہمارے معاشرے میں سدھار کب آئے گا۔کب ہم دوسروں کی نصیحت کے محتاج نہیں رہیں گے۔ کب ہم اپنا اچھا براخود سوچنے کے قابل ہو جائیںگے۔ مگر نہیں لگتا کہ ایسا ہو۔کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم کا روشن دور اب بھی نہیں آیا۔ تعلیم وہ نہیں جو سکول کالج سے ملے مگر ہمیں اپنے گھر سے اگر تربیت حاصل نہ ہو تو ہم نے باہر وہی کچھ کرنا ہے جوہمیں گھر سے سیکھنے کوملتاہے۔۔ ان کو تربیت حاصل ہوناچاہئے کہ چیخ وپکار کرتی ہوئی ایمبولنس کے راستے میں سے ہٹ کر ایک طرف کھڑے ہو جائیںتاکہ اس گاڑی کوراستہ ملے اور مریض کوزندگی ملے ۔مگر یہاں تو اور ہی عالم ہے بجتا رہے ایمبولنس کاسائرن شور مچے مجال ہے کسی ایک کا دل بھی موم ہو اور وہ اپنی گاڑی کو سائیڈ پرلگا لے تاکہ یہ ایمرجنسی گاڑی ہسپتال تک جلد از جلد پہنچ جائے ۔بلکہ پولیس کو چاہئے کہ جہاں بھی ہوں اس وقت جب ایمبولنس آ رہی ہو اور اس کا ہنگامی سائرن بج رہاہو تو وہ ٹریفک کو اپنے زور پر روک لیںاور ایمبولنس کو جانے دیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسا بھی تو نہیں ہوتا۔ ہاں اگرکالے شیشے چڑھی ہوئی گاڑی میں سرکاری بندہ کوئی بڑے صاحب آ رہے ہوں گے تو ان کے لئے راستہ صاف کیاجائے گا۔چاروں رستوں پر اہلکار چوکنے ہوکر کھڑے ہو جائیںگے اور جب تک سرکاری گاڑی نہ گذر جائے وہ ٹریفک کو روکے رکھیں گے۔بس ہے اب یہ ناانصافی کارویہ ترک کردیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایمبولنس کے سائرن کی آواز سے ملتی جلتی آواز عام گاڑیوں کے پاس بھی لگا ہے ۔ جو یہاں سڑکوں پر ہر وقت بجتا رہتا ہے۔پھربعض پرائیویٹ گاڑیوں نے موٹر سائیکل سواروں نے ہنگامی سائرن کے ہارن لگا رکھے ہیں۔ ان پریشر ہارن کی وجہ سے بندہ حیران اور پریشان ہو کر ایک طرف ہو نے کی کوشش کرتاہے ۔مگر جب گاڑی پاس سے گزر کرآگے چلی جاتی ہے تو اس وقت معلوم ہوتا کہ اس موٹرگاڑی والے نے عوام کو دھوکا دیا تاکہ یہ لوگ آگے سے ہٹیں اور سڑک پریہ بلاشرکتِ غیرے دندناتے گھومتے اور جھومتے ہاتھی کی طرح بے باکانہ آئیں اور جائیں۔