انسانوں کی تخلیقات میں کچھ بھی مثالی نہیں‘ چاہے وہ عمودی یا افقی تعمیر و ترقی ہو یا پھر طرزمعاشرت اور طرز حکمرانی۔ ہر تخلیق میں کسی نہ کسی درجے خرابی پنہاں دکھائی دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے اَصول وضع کرنے والوں نے جس قدر بھی نمائندگی کے اِس نظام کو جامع بنانے کی کوشش کی‘ جس قدر بھی تجربات اور مطالعہ کیا اُسی قدر ”برداشت“ کی اہمیت و مقصدیت کو بیان کرتے رہے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود بھی جمہوریت کی ایک ایسی مثالی اور ایک ایسی عملی تصویر اُبھر کر سامنے نہ آسکی جسمیں عام آدمی کے مفادات اور ایسا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر جمہوریت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی حد یا کسی نہ کسی صورت میں حکومتیں اپنے خلاف ہونے والے احتجاج اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اِسی سے آزادی¿ اظہار کی اصطلاح نے جنم لیا جسے بحال رکھنے کے لئے عالمی سطح پر کوششیں ہوتی ہیں اور ممالک کی سالانہ درجہ بندی بھی اِس کسوٹی پر کی جاتی ہے کہ کس ملک میں کس قدر آزادی¿ اظہار ہے جسے بنیادی انسانی حق تسلیم کر لیا گیا ہے یعنی اگر کسی ملک میں جمہوریت نہ بھی ہو (جیسا کہ عرب دنیا) لیکن وہاں کے حکمرانوں پر فرض بنتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کا احترام کریں اور اِسے غنیمت سمجھیں۔ دنیا جس ایک تصور پر متفق ہے وہ یہ ہے کہ مذکورہ دونوں اعمال (احتجاج اور اختلاف رائے) سے مل کر جمہوریت بنتی ہے‘ نکھرتی ہے‘ پنپتی ہے اور اِس کے قیام کا اصل مقصد اور ارتقائی مراحل طے ہوتے ہیں لیکن اگر احتجاج اور اختلاف رائے کو نکال دیا جائے تو جمہوریت سے اِس کی روح یعنی جمہور اور اُن کے مفادات وقت کے ساتھ الگ ہوتے چلے جاتے ہیں!حالیہ چند دنوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے سیاسی گہماگہمی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اِس سلسلے میں ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی جس سے قبل حزب اختلاف کے رہنماو¿ں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت درج ہونے والے ایک مقدمے نے دلچسپ صورتحال پیدا کر دی ہے اور یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف اپنے خلاف احتجاج کو کامیاب بنانے کے لئے حزب اختلاف سے تعاون کر رہی ہو!یہ قطعی معمولی بات نہیں کہ کسی شخص پر غداری جیسا ”فرد جرم“ عائد کر دیا جائے اور اگرچہ اِسے عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکے گا لیکن بنیادی بات وہ لاعلمی ہے جس کا اظہار وزیراعظم کے صدر دفتر کی جانب سے ہوا ہے اور اگر واقعی ایسا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی لاعلمی میں اُن سبھی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو گیا ہے جن میں صرف وفاقی اور صوبائی حکومت یا اِن کی جانب سے نامزد کوئی نمائندہ فریق بن سکتا تھا تو یہ اپنی جگہ تشویشناک امر ہے۔حزب اختلاف غداری اور بغاوت جیسے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے سولہ اکتوبر سے ایک ایسی تحریک شروع کرنے جا رہی ہے جس سے واپسی کا امکان ہر دن کم ہوتا چلا جائے گا جبکہ اِس عرصے میں اگر اُن انتخابی وعدوں کی تکمیل (مہنگائی کی شرح میں کمی اور احتساب کا وعدہ) پورا کیا جائے تو ملک میں جمہوریت کا مفاد غالب رہے گا بصورت دیگر اقتدار کے لئے اختیار اور احتجاج استعمال کرنے والی بالترتیب حکمراں اور حزب اختلاف کی جماعتیں عوام کے مسائل و مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گی۔ کورونا وبا کے سبب متاثرہ معاشی و اقتصادی سرگرمیاں پہلے ہی بمشکل بحال ہو رہی ہیں اور اگر حزب اختلاف کی احتجاجی تحریکیوں میں ملک کے بڑے شہروں (کوئٹہ‘ لاہور‘ پشاور اور کراچی) میں جلسے کئے گئے تو اِس سے رہی سہی کسر نکل جائے گی۔ حکمران (حزب اِقتدار) ہوں یا شریک حکمراں (حزب اختلاف)‘ دونوں کا مو¿قف درست اور سرآنکھوں پر ہے لیکن ایک مو¿قف عوام کا بھی ہے اور ایک مفاد عوامی بھی تو ہے‘ جس کے بارے میں زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت غوروفکر ہونا چاہئے اور جمہوری قدروں کو مضبوط بنانے کے لئے اقتدار ہو یا احتجاج ہر کام ایک مختلف اور زیادہ احسن انداز میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ سیاست میں دوست اور سیاست میں دشمن نہیں ہوتے بلکہ سیاست میں اتحادی اور ممکنہ اتحادی ہوتے ہیں۔ آج جو سیاسی جماعتوں ایک دوسرے سے فاصلہ کئے ہوئے ہیں کل کو یہی اتحادی ہوں گی تو کیا یہ بصیرت و دانشمندی نہیں کہلائے گی کہ سیاسی اتحاد و اتفاق کی منزل پر بنا سفر اور بنا صعوبت کا باعث بنے بغیر فائز ہوا جائے؟ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہر قدم احتیاط اور تدبر سے اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ پہلے ہی عوام کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے جن کو حل کرنا ازحد ضروری ہے اور انتشارو افراتفری کی حالت میں یہ قدم اٹھانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔