عجلت سے گریز کی ضرورت

پا نچوا ں صو بہ تشکیل دینے کی خبریں گر دش کر رہی ہیں اور ان خبروں کے ساتھ مزید خبریں بھی آرہی ہیں تاہم ان میں سے اہم یہ ہے کہ حکومتی حلقوں نے گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صو بہ بنا نے کا فیصلہ کر لیا ہے اس کا اعلا ن منا سب وقت پر کیا جائے گا اس خبر کے ساتھ جو دوسری خبر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی اتحا دی جماعت ایم کیو ایم نے کرا چی اور حیدر آباد پر مشتمل نیا صوبہ بنا نے کا مطا لبہ بھی کیا ہے اگر ایسا ہوا تو جنو بی پنجاب کا صوبہ بننے کا منصوبہ بھی جلد یا بدیر سامنے آ جائے گااور وطن عزیز پاکستان کی اکا ئیوں کا نیا نقشہ تشکیل پا ئے گا، حقیقت یہ ہے کہ انتظامی اکائیوں کو عوام کی سہولت کے مطابق ترتیب دینے میں کوئی قباحت نہیں،دنیا کے دیگر ممالک میںصوبوں کو چھوٹا رکھا جاتا ہے تاکہ وہاں پر انتظامی امور اور عوام کو تمام سہولیات کی فراہمی میں آسانی ہو سنجیدہ بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں 15 نومبر کو نئی اسمبلی کے انتخا بات ہو نگے حلف برداری اور حکومت سازی کے بعد اسمبلی سے صوبہ گلگت بلتستان کے قیام کی قرار داد منظور کرائی جاسکتی ہے قرار داد کی روشنی میں گلگت بلتستان دسمبر 2020 میں پا نچواں صو بہ بن جائے گا قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کو نما ئندگی مل جائیگی سپریم کورٹ میں بھی گلگت بلتستان کو رسائی ملے گی اور علاقے کے عوام کا دیرینہ مطا لبہ پورا ہو جائے گا جس طرح ہمارے ہاں پرانا دستور اور رواج ہے اس خبر کے ساتھ بھانت بھانت کی بو لیاں سننے اور پڑھنے میں آرہی ہیں جتنے منہ اتنی باتیں دہرائی جا رہی ہیں‘ ان حلقوں کے مطالبات کیا ہیں اور ان کا موقف کیا ہے یہ جاننا بھی ضروری ہے تاکہ عوامی اور ملکی مفاد میںجو کام کیا جائے تو اس میں عوامی رائے بھی اہمیت رکھتی ہے تاہم ان حلقوں کے واضح مطالبات کو سامنے رکھ کر ملک کے پانچویں صوبے کی تشکیل پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ آسا ن فیصلہ نہیں بلکہ اس فیصلے کے دوررس مضمرات ہو نگے سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت اگر نیا صوبہ بنا نے میں حد سے زیادہ سنجیدہ ہے تو اسے مسئلے کے مر کزی فریق یعنی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام کی رائے معلوم کرنےکا کوئی مسلّمہ طریقہ ریفرنڈم یا استصواب کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا مسئلے کے اصل فریق کی رائے معلوم کئے بغیر اتنا بڑا فیصلہ دیر پا ثا بت نہیں ہوگا بعض سیاسی حلقوں کی دلیل یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی نئی اسمبلی علا قے کے عوام کی تر جما نی کا حق ادا کرے گی اس دلیل کو رد کرنے والے قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ عام انتخابات میں ایک سیٹ کےلئے 3سے زیادہ امیدوار کھڑے ہوتے ہیں کامیاب ہونےوالے اُمیدوار علاقے کے ایک تہائی ووٹروں کی نمائندگی کر تے ہیں جبکہ دو تہا ئی آبا دی اسمبلی میں نمائندگی سے محروم ہو تی ہے کوئی بھی اہم فیصلہ ایک تہا ئی کے نمائندوں کی رائے سے نہیں ہو سکتا اگر قرار داد متفقہ طور پر منظور نہیں ہوئی تو ایک تہا ئی کے نصف لو گ فیصلے میں شریک نہیں ہو نگے اس طرح کی قرار داد کو علاقے کے عوام کی رائے قرار دینا قرین انصاف نہیں ہو گا چنانچہ گلگت بلتستان کو ایک صو بہ بنا کر آئینی حقوق دینے کا معا ملہ اتنا سادہ معا ملہ نہیں ہے جتنا اس کو خیال کیا جا تا ہے پھر بھی ملکی مفاد میں جو بھی قدم اٹھایا جائیگا وہ یقینا سوچ سمجھ کر اٹھایا جائیگا کیونکہ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ یعنی انتظامی امور کی انجام دہی اور قومی مفاد کے تحت اگر ایسے فیصلوں کی ضرورت ہے تو یقینا ان میں کوئی قباحت نہیں تاہم ضروری ہے کہ اس حوالے سے اتفاق رائے سے کام لیا جائے تاکہ ان اٹھائے گئے اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آئیں ورنہ بعض اوقات عجلت میں اٹھائے گئے اچھے اقدامات بھی خاطر خواہ نتائج نہیں دے پاتے اور دیکھا جائے تو یہ ایک بہت اہم فیصلہ ہے جس کے مثبت اور منفی ہر طرح کے اثرات کا پہلے سے بھرپور جائزہ لینا ضروری ہے۔