انڈیا‘ آسٹریلیا‘ جاپان اور امریکہ کے وزرائے خارجہ ٹوکیو میں ملاقات کر رہے ہیں اور اس ملاقات کے دوران ان ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے خصوصی اہمیت چین کے ساتھ معاملات کو دیے جانے کی توقع ہے ۔ان چار ممالک کے گروپ کو©©"کواڈ"کانام دیا گیا ہے جن میںامریکہ معاشی لحاظ سے سر فہرست ہے جبکہ جا پان دنیا کی تیسری اور انڈیا معاشی لحاظ سے پانچویں بڑی معیشت ہے جب کہ آسٹریلیا کاشمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ چاروں بڑی طاقتیں دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے دنیا پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور دنیا کے چین پر انحصار کو کم کرنے کے ارادے سے ٹوکیو میں جمع ہوئی ہیں۔ انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا کی اس کوشش کو سپلائی چین ریزیلیئنس انیشیئیٹو (ایس سی آر آئی) کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد ایسی راہیں نکالنا ہیں جن سے چین پر انحصار کم ہو اور دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر سپلائی چین کو بہتر بنانے کے طریقے تلاش کیے جائیں۔ان کوششوں کو چینی صدر شی جن پنگ کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو‘ کے متبادل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ کہا جا تاہے کہ امریکہ کواڈ اور ایس سی آر آئی کو تجارت، صحت اور سلامتی کے شعبوں میںچین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ٹوکیو کے زیربحث اجلاس میں ان چار ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون کو بڑھانے، صحت سے متعلق معاملات اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانے اور اس پر عملدرآمد کرنے پر بات ہو گی۔ دراصل یہ چار ممالک چین کے دنیا پر بڑھتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی ا ثرات سے پریشان نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب پچھلے مہینے چین کے نائب وزیر خارجہ نے کواڈ کو ’چین مخالف فرنٹ لائن‘ یا ’منی نیٹو‘ قرار دیتے ہوئے اس کی تشکیل پر اعتراض کیا تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ کواڈ ممالک کورونا کی وباءکے خلاف جنگ میں اپنی ناکامی چھپانے کے لیے چین کے خلاف محاذ آرائی کو استعمال کر رہے ہیں۔کواڈ کے چین کے لیئے ممکنہ خطرات پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرناچاہیے کہ چین اس وقت بھی بھارت کادوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے،آسٹریلیا کی کل برآمدات کا تقریباً نصف (48.8 فیصد) چین کو جاتا ہے۔ چین اور جاپان کے درمیان 2019 میں دوطرفہ تجارت 317 ارب ڈالر تھی جو جاپان کی کل تجارت کا 20 فیصد ہے۔اسی طرح امریکہ چین کے درمیان تجارتی جنگ کے باوجود 2019 میں ان کی دو طرفہ تجارت 558 ارب ڈالر تھی۔ان حقائق سے یہ واضح ہے کہ ان ممالک کا چین سے فوری چھٹکارا حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا اور اس کے حصول میں برسوں لگ سکتے ہیں۔البتہ دوسری جانب یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکہ نے 2018 کے بعد ہی سے چین کے خلاف محصولات کی دیوار تعمیر کرنا شروع کر دی تھی۔ جاپان اپنی ان کمپنیوں کو واپس لانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جن کی پروڈکشن یونٹ چین میں ہیں اور آسٹریلیا نے بھی چین کی دھمکیوں میں آنا بند کر دیا ہے لیکن چین کے خلاف اٹھائے گئے یہ تمام تر اقدامات اب تک زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئے ہیں۔محصولات کی جنگ کے باوجود چین نے رواں سال جولائی تک امریکہ کو 220 ارب ڈالر مالیت کی اشیاءبرآمدکی ہیں۔جب کہ اس عرصے میں امریکہ نے چین کو تقریباً 60 ارب ڈالر کا سامان بھی فروخت کیا ہے جبکہ جاپان کی مجبوری یہ ہے کہ چین اس کے لیے ایک بڑی منڈی ہے۔ یاد رہے کہ اس چار فریقی اتحاد کو2007 میں اس وقت کے جاپانی وزیرِ اعظم شنزو ایبے کی کوششوں سے غیر رسمی طور پر قائم کیا گیا تھا۔ اسی سال چاروں ممالک نے بحرہند میں مشترکہ بحری مشقیں بھی کی تھیں۔ تاہم یہ اتحاد اس وقت اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہاتھا کیونکہ 2008 میں آسٹریلیا ان مشقوں سے نکل گیاتھا اور انڈیا نے اسے دوبارہ شرکت کی دعوت دینا بھی گوارہ نہیں کی تھی۔البتہ انڈین میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق اگلے برس کے آغاز میں یہ بحری مشقیں متوقع ہیں اور اب انڈیا ان میں آسٹریلیا کوبھی شرکت کی دعوت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔دراصل اس اتحاد میں انڈیا کی دوبارہ دلچسپی کا مقصد اپنی سرحدی حدود کو محفوظ رکھنے کے لیے بین الاقوامی حمایت اور مدد حاصل کرنا اور چین کے خلاف ایک مضبوط فورس تیار کرنا ہے۔