’عزت ِنفس‘ پہ بن آئی ہے!

سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں بالخصوص نوجوانوں کو اپنی کم عمری اور ناتجربہ کاری کے باعث جن مختلف تجربات سے گزرنا پڑتا ہے‘ اِس بارے میں ایک عالمی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اِنٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والی دوستیاں اکثر ناپائیدار ثابت ہوتی ہیں اور اِن کی وجہ سے سکون یا آسرے کی تلاش کرنے والے بے سکون اور بے آسرا ہو جاتے ہیں۔ ”آن لائن بدسلوکیوں“ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ”عالمی مسئلہ“ شمار کیا گیا ہے اور اِس سے متاثر ہونے والوں میں اکثریت خواتین کی بتائی گئی ہے۔ مغربی و مشرقی معاشروں میں خواتین اِس بات کی عمومی شکایت کرتی ہیں کہ آن لائن دوستی کرنے کا نتیجہ دھمکیوں کی صورت ملتا ہے۔ سال 2017ءمیں ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے آٹھ ممالک کی 4 ہزار خواتین پر مبنی رائے شماری کرائی اور اس میں یہ پایا کہ 76فیصد خواتین نے سوشل میڈیا پر بدسلوکی کے بعد اس کے استعمال کو محدود کردیا تھا یعنی اُنہوں نے انٹرنیٹ پر منحصر سوشل میڈیا کا استعمال کرنا ہی ترک کر دیا جبکہ 32 فیصد خواتین نے کہا کہ انہوں نے کچھ معاملات پر اظہار خیال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ عمومی تصور یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے صارفین سب سے زیادہ اظہار خیال کرتے ہیں لیکن مذکورہ تحقیق سے اِس تاثر کی نفی ہوئی ہے اور معلوم ہوا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے اجنبیوں کو دوست بنانے والوں کی اکثریت کو پشیمانی ہوئی ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پاکستان میں بھی نئی نسل کو مذکورہ عالمی تحقیق کے بارے میں بتاتے ہوئے سوشل میڈیا کے محفوظ یعنی سوچ سمجھ کر استعمال بارے خواندہ کیا جائے۔ اِس سلسلے میں نصاب میں مضامین شامل کرنے سے لیکر اساتذہ کی تربیت ضروری ہے کہ اخلاقی اقدار کا ذکر نصاب میں ہونا ضروری نہیں ہوتا اور یہ بھی لازم نہیں کہ ہر بات نصاب ہی میں شامل ہونی چاہئے بلکہ بہت ساری باتیں اور بالخصوص عصری چیلنجز سے نمٹنے کے لئے نوجوانوں کی رہنمائی اگر ہر تعلیمی درجے میں معلم نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا اور سوائے معلم یہ ذمہ داری کون بخوبی انداز میں سرانجام دے سکتا ہے؟شاعر لیث قریشی نے کیا خوب کہا تھا کہ ”خوب انداز پذیرائی ہے .... عزت نفس پہ بن آئی ہے!“ بس یہی نتیجہ خیال اور موضوع ہے کہ اپنی اور دوسروں کی عزت نفس کا احترام اور حفاظت کیسے کی جائے۔ بنیادی موضوع تو یہ ہے ”انٹرنیٹ تک بڑھتی ہوئی رسائی کے نتیجے میں زیادہ تر خواتین کو عوامی زندگی میں حصہ لینے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی صورت میںآن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے“ لیکن یہ مسئلہ صرف خواتین ہی کو درپیش نہیں بلکہ دیگر بھی متاثر ہیں اور اِسی لئے ضمنی موضوع (خاموشی) پر غور ہونا چاہئے کہ سردست پاکستان میں ایسی کوئی بھی مہم‘ کوئی بھی تحریک یا بحث ایسی نہیں چل رہی کہ جس کے ذریعے نوجوانوں کو آن لائن بدسلوکی کرنے اور اِس کا شکار ہونے سے محفوظ رہنے کی تربیت دی جائے ¾ماضی کے مقابلے سائبر کرائمز کا خاتمہ کرنے کے لئے اداروں کو بااختیار بنایا گیا ہے ¾یوں دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے انٹرنیٹ کو صارفین اور صارفین کو انٹرنیٹ کے حوالے کر دیا گیا ہواور اَب اُن سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ خود ہی تیراکی بھی سیکھیں اور انٹرنیٹ کے سمندر میں آنے والے طوفانوں اور ساحل سے ٹکرانے والی موجوں سے بھی خود کو محفوظ رکھیں۔ فیصلہ سازوں کو تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی اور تیزی سے بڑھتے انٹرنیٹ پر انحصار کو مدنظر رکھتے ہوئے تین شعبوں (علم‘ خواندگی اور تربیت) کی الگ الگ ضروریات اُور تقاضوں کو سمجھنا ہوگا۔ علم یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی ایجاد و ارتقاءکیسے ہوئی۔ خواندگی یہ ہے کہ انٹرنیٹ کیسے کام کرتا ہے اور اِس کے جدید اسلوب و استعمال کیا ہیں۔ تربیت (علم و خواندگی کی عملی شکل اور مجموعہ) یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر منحصر وسائل کو کسی مذہبی‘ سماجی و اقدار کے تابع رکھا جائے اور صارفین کی نفسیات اور اِن کے انسانی حقوق‘ آزادی عزت‘ جان و مال کےلئے خطرات کی موجودگی کا اِحساس کیا جائے ۔ یہ اہداف ازخود حاصل نہیں ہوں گے اور نہ ہی سائبرکرائمز سے متعلق خصوصی و عمومی قوانین و قواعد کے سخت گیر فوری اطلاق کے بغیر سوشل میڈیا صارفین کے رویوں میں تبدیلی آئے گی۔ ”عزت ِ نفس رکھ سکو محفوظ .... اور اِس کے سوا ’دعا (مدعا)‘ کیا ہے (سیّد حامد)۔“