سائیکل اور موٹر سائیکل

 میں تو کہتا ہوں اب ان کے لئے کوئی قانون سازی کر لیںکیونکہ معاملہ ہاتھ سے نکلا جا رہاہے ۔کیونکہ اب ان کوکوئی روک نہیں سکتا ۔ سو جب ان کی روک تھام کسی کے بس کا کام نہیں تو ان کو اس کھیل کے کھیلنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔آپ بھی خوش یہ بھی خوش۔ بھلے یہ گرتے رہیں اور ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ کی رونق میں اضافہ کریں۔پھر اگر یہ خونی کھیل ہے تو کیا ہوا ۔ اس سے بڑھ کر خونی کھیل ا س دیار میںاور زیادہ کھیلے جا رہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں ایسے ایسے کھیل ہیں کہ کھلاڑی جان سے جاتے ہیں مگر کھیل کو کھیل سمجھتے ہیں دل کاروگ نہیں بناتے۔بلکہ عرضداشت یہ ہے کہ اس کھیل کو قومی کھیل ہی کا درجہ دے دیں۔بل فائٹنگ کھیل نہیں ہے کیا۔بل فائٹنگ کے بغیر سپین کے ملک کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کھیل میں تو پورا شہر ایک بدمست تیز طرار اور برق رفتار بیل کے آگے شوقیہ دوڑتے ہیں ۔ اگر بیل کا سینگ کسی کی کمر میں گھس گیا او روہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو کوئی خاص بات نہ ہوگی۔وہ تو دوبارہ سہ بار اور باربار یہ کھیل کھیلتے ہیں ۔بہت سے کھیل ایسے ہیں جن میں جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے مگر لطف آنے کاجو مزا ہے وہ جان چلے جانے کے ڈر سے زیادہ مزیدار ہے ۔سو ہمارے ہاں اگر ون ویلنگ والوں کے لئے سڑک کے متوازی ہر روڈ کے کناروں پر ٹریک بنا دیئے جائیں تو یہ لوگ سکون سے وہاں اپنا کھیل جاری رکھ سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ایمبولنس بھی چلائی جائیں کیونکہ سائیکل کی ریس اور دیگر کھیلو ںمیں بھی ایمبولنس ساتھ ساتھ کھڑی ہوتی ہیں یا جا رہی ہوتی ہیں ۔ سو اس کھیل کو بھی اگر دردِ سر نہ سمجھیں تو اس کے لئے کچھ قانون بنا لیں اور ان کو اجازت دیں کہ یہ کھیل کھیلیں بلکہ کھل کھیلیں۔ ان کے والدین کوبھی تو پروا نہیں ۔ اگر وہ یہ بھی نہ کریں تو خود انصاف کریں یہ آخر اور کیا کریں۔ موبائل سے بھی نہ کھیلیں تو اپنی جان سے تو کھیلیں۔ یہ اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ ون ویلنگ کے دوران میں اس کرتب بازی میں وہ وہ پینترے بدلتے ہیںکہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ ویسے اگر ہم بھی ان کی طرح پتلے سوکھے اور چست وچالاک اور پھرتیلے ہوتے تب بھی یہ کام نہ کرتے ۔ پھرہم نے اپنی جوانی کے زمانے میںبھی تو نہیں کیا۔ پھر جوانی کی بات تو ہم نے یوں ہی کہہ دی ۔ہم بوڑھے بھی تو نہیں ۔ بس یہ کہ تھوڑے بال مکمل سفیدی کی طرف مائل ہیں ۔ہمارے ہاں اس قسم کے موت کے بہت سے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ موت کاکنواں ہر سرکس میں ہوتا ہے۔ وہاں بائیک رائیڈر گول گول اور تیز تیز دوڑتا ہے ۔کنویں کے اندر کا ماحول او راسکا یوں صحت مند طریقے سے گولائی میں چکر کاٹنا حیران کن بھی ہے اور قابلِ تعریف بھی ہے ۔سو ان کو بھی چھوڑ دیں کہ یہ بھی اپنا کام کریں۔جب کچھ نہ بن پڑے تو اتنا تو ہو سکتا ہے کہ ان کو ہر قسم کے قانون سے دور رکھا جائے۔ ویسے آج کل سائیکل چلاتے ہوئے لوگ بہت کم نظر آتے ہیں ۔ہر طرف اب تو بن سبزے کی بہار ہے ۔جی ہاں جتنے روپوں میں سائیکل ملتی ہے اتنے پیسوں میں تو شو روم میں سے قسطوں کی بائیک نکالی جا سکتی ہے۔ہمارے اپنوں نے نکال رکھی ہے بلکہ مہربان اور قدران تو بنکوں سے دھڑا دھڑگاڑیاں نکال کر سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ گاڑی کی قسطیں ہیں جمع ہوتی رہیں گی کیونکہ سائیکل کا دور تو اب گیا۔ پخہ غلام میں ہمارے دوست ہیں ان کا نام مقصود ہے ۔ بازار میں ہر بار ان کو سائیکل پر ہی دیکھا ہے ۔آخر میں نے ایک دن پوچھا آپ اچھے بھلے ہیں موٹر سائیکل خرید لیں ۔انھوں نے کہا میرے پاس نئی نویلی اور چمچماتی موٹر بائیک گھرکی ڈیوڑھی میں کھڑی ہے ۔مگرمجھے جو مزا سائیکل چلانے میں آتا ہے وہ بائیک میں کہاں ۔ہمارے چچا عبدالوحید سول سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری تھے ساری عمر سائیکل پر آتے جاتے رہے ۔ان سے سائیکل کوئی مانگ بھی نہیں سکتا تھا۔ ا ن کو سائیکل اتنی عزیز تھی کہ چٹ انکار کردیتے ۔میں بہت حیران ہوا مجھے آنکھوں ہسپتال کے دوست خلیل یادآئے ۔ گل بہار سے یکہ توت تک اور یہاں سے وہاں تک سائیکل چلاتے ہیں۔ ان کو رکشہ نے پیچھے سے ٹکر مار دی ۔ چاچا خلیل زخمی ہوکر ہسپتال جا پہنچے ۔ سائیکل کی حالت اتنی بری ہوئی کہ اس کا ایک پہیہ بجائے گول ہونے کے تصویر کاچار کونوں والا فریم بن گیا۔ان کے پاس بھی گھر میں دو دو موٹر سائیکل کھڑے ہیں مگر ان کو بائیک پر مزانہیںآتا۔خود اس بندہ ¿ عاجز یعنی مجھے چار پہیو ںکی گاڑی چلانا پسند نہیں۔ہاںشاید اس لئے کہ گاڑی خریدنے کی طاقت نہیں ۔