رواں برس اگست میں امریکہ اور بھارت نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی جس کی مختلف وجوہات تھیں لیکن پاکستان نے غیراخلاقی‘ فحش اور سیاسی شخصیات کے خلاف توہین آمیز مواد نشر کرنے کی بنا پر ’ٹک ٹاک‘ تک رسائی ختم کر دی ہے لیکن سوشل میڈیا کے ایسے کئی دیگر وسائل اور طریقے ہیں جن کے ذریعے ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے والے اپنی تخلیقات پھیلا سکتے ہیں اور چونکہ مختلف سیاسی جماعتوں نے غیراعلانیہ طور پر اپنے اپنے ’سوشل میڈیا سیل‘ بنا رکھے ہیں تو یہ ’آن لائن جھڑپوں‘ کا سلسلہ جاری رہنے کی توقع ہے۔ حرج نہیں کہ سوشل میڈیا کے اُن تمام وسائل پر ایک ہی مرتبہ پابندی عائد کر دی جائے‘ جن سے صرف اخلاقی ہی نہیں بلکہ ملک کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جیسا کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے (رواں برس اگست میں) ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کئے تھے جس کے تحت ’ٹک ٹاک‘ کی مالک کمپنی ’بائٹ ڈانس‘ کے ساتھ ہر قسم کے لین دین پر پابندی کر دی گئی۔ اِس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ٹک ٹاک کے پاس صارفین کی معلومات ہوتی ہیں اور اِن معلومات کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے لہٰذا ”قومی سلامتی کو خطرے“ کے پیشِ نظر ’ٹک ٹاک‘ کے مالکان کے خلاف جارحانہ کاروائی کرنا ہوگی جبکہ ’ٹک ٹاک‘ نے اِن اور دیگر سبھی الزامات کی تردید کی اور کہا کہ اس کے پاس محفوظ ٹک ٹاک صارفین کے کوائف (ڈیٹا) پر چین کی حکومت یا حکمراں کیمونسٹ جماعت کا کنٹرول نہیں یا صارفین کے کوائف تک کبھی بھی چین کی حکومت کو رسائی نہیں دی گئی۔ ٹک ٹاک نے اپنے وضاحتی بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ قریب ایک سال تک مذاکرات کرنے کی کوشش کی گئی مگر اُنہوں نے منصفانہ رویہ نہیں اپنایا اور ان کا سامنا ایک ایسی انتظامیہ سے ہوا جو ’حقائق کو چنداں توجہ نہیں دیتی۔اس کے علاوہ جولائی میں بھارتی حکومت نے ٹک ٹاک سمیت 59چینی ایپس پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ چین کے ساتھ لداخ کے سرحدی علاقے میں کشیدگی کے دوران بھارتی حکومت نے اِس فیصلے کو ہنگامی حل اور قومی سلامتی کےلئے ضروری اقدام قرار دیا تھا ۔ بھارت کے وزیر اطلاعات اور نشریات روی شنکر پرساد نے اس وقت اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ”پابندی سکیورٹی‘ خود مختاری اور سالمیت کے لئے ضروری ہے اور بھارتی شہریوں کے کوائف اور نجی معلومات پرائیوسی میں کسی طرح کی جاسوسی نہیں چاہتے۔“ کیا پاکستان نے امریکہ اور بھارت کے نقش قدم پر چل کر درست فیصلہ کیا ہے؟نو اکتوبر کی شام مختصر دورانیے کی ویڈیوز بنانے اور اِن کا تبادلہ کرنے والی ایپلی کیشن ”ٹک ٹاک“ پر ’غیر اخلاقی مواد‘ ذخیرہ کرنے اور اِس کی اشاعت و ترویج جیسی مبینہ شکایات موصول ہونے کے باعث پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تو یہ بات پاکستانی ٹک ٹاک صارفین بالخصوص نوجوانوں کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ آخر وہ کونسا ایسا فحش مواد تھا جس کی وجہ سے ٹک ٹاک نشانہ بنا؟ کہیں ٹک ٹاک اُس سیاست کی بھینٹ تو نہیں چڑھ گیا جو کسی وبا کی صورت پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے اور اِس سے اعلیٰ سیاسی و غیرسیاسی شخصیات کو اپنی عزت محفوظ محسوس نہیں ہو رہی!؟ مواصلات کے ریگولیٹری ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے اس بارے میں باضابطہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ”معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے ٹک ٹاک پر موجود مواد کے خلاف شکایات موصول ہوئی تھیں۔پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ماہانہ دو کروڑ کے قریب یا اِس سے کچھ زیادہ صارفین ’ٹک ٹاک‘ استعمال کرتے ہیں اور پی ٹی اے کی جانب سے رواں سال بیس جولائی کو بیگو پر بھی ”غیر اخلاقی‘ فحش اور غیر مہذب“ مواد کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ٹک ٹاک کو بھی حتمی وارننگ جاری کر دی گئی ہے۔ ایک موقع پر تنقید اور تنازعات کے نشانے پر ٹک ٹاک پی آئی اے عملے کی معطلی کی وجہ بنی تھی تو کبھی حریم شاہ کی وزارت داخلہ میں داخلے پر تحقیقات کی گئیں لیکن ٹک ٹاک کا جادو پاکستان کے سر چڑھ کر بولتا رہا اور اب بھی اگر پابندی عائد ہوئی ہے تو اِس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ٹک ٹاک کے ذریعے سیاسی شخصیات پر تنقید بصورت میمز بنانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ بہرصورت پابندی کارگر ثابت نہیں ہوگی کیونکہ نیٹ اور موبائل کی دنیا میں ہر شے کا متبادل پہلے سے موجود ہوتا ہے ۔