یہاں غریب نے ہمیشہ غریب ہی رہنا ہے ۔ یہ کہناکہ غریب بھی مالدار ہو جائے گا ایک خیال ہی تو ہے ۔ یہاں تو غربت نے جس طرح اپنے پر بکھیر رکھے ہیں اس بات کو تو ستر سے اوپر سال بیت گئے۔ مگر غریبوں کی حالت نہ بدلی۔ روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ لگا اور جانے کیسے کیسے نعرے لگے ۔فلک شگاف آواز میں ان کے گلے رگیںپھول گئیں مگر نہ بدلی تو ان غریبوں کی تقدیر نہ بدلی ۔بڑے بڑے دیکھے سیاست کے ٹائیکون کو ان آنکھوں نے پرکھا مگر نتیجہ بر آمد ہوا کہ یہ لوگ کچھ نہ کرسکے اور ابھی تک کچھ کرسکنے کے قابل ہی نہیں ۔ ہر آنے والا آنے سے پہلے بلند بانگ دعوے کرتا ہے ۔ ۔ دوسری طرف غریب غرباءروٹی اور دانہ دانہ کو محتاجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ شاعروں نے گیت لکھے اور نظمیں تخلیق کیں جس میں انھوں نے ان لوئر کلاس کے لوگوں کو امید دلائی ۔ ترقی پسند تحریک کے شاعروں نے کیا کیا۔ یہی کہ غربت دور کرنے کے شعر کہے غریبوں کوامید دلائی۔ مگر اس سلسلے کی ہر تحریک دم توڑ گئی وہی سرمایہ کاروں کا نظام ہے جو ابھی تک نہیں بدلا ۔ اگر نظام اسلام بھرپور طریقے سے نافذ ہو تو ایک غریب نہ رہے ۔اسلامی دور میں خلفاءہاتھ میں زکواة لے کر کھڑے ہوتے تھے اور زکواة لینے والے نہ ملتے تھے۔ اگر صرف زکواة کا نظام ہی درست ہو جائے اور پوری کی پوری زکواة تقسیم ہو اور نادار و حقدار یہ رقم وصول کریں تو یہاں کسی اور نظام کی ضرورت نہیں۔جن پر زکواة فرض ہے وہ ا س کا اہتمام کریں اور کنجوسی سے بغض سے کام نہ لیں ۔ ہر سال زکواة دیں تو غربت چند دنوں میں ختم ہو سکتی ہے۔مگر یہاںتو حقدار کواس کا حق نہیں ملتا۔احمد ندیم قاسمی کانعتیہ شعر ہے کہ ” تمھارے دینِ مساوات کی قسم مجھ کو ۔ کہ تیرے دیں سے بڑا کوئی انقلاب نہیں“ ۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔ کروڑہا روپوں کے فنڈ ہر سال ریلیز ہوتے ہیں اور ہر سال سینکڑوں لوگ اسے چٹ کرجاتے ہیں ۔ یہ فنڈ جس جگہ لگانا ہوتا ہے وہاں اول تو لگتا نہیں اور لگتا بھی ہے تو روپے میں چار آنے باقی کا ان کی جیبوں میں گم ہو جاتا ہے۔پھرکہتے ہیں کہ ہم نے کرپشن ختم کردی ہے ۔کرپشن تو جیسے تھی ویسے کی ویسے ہے ۔ہاں اگر کہوں کہ اس کے انداز بدل گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ساحر مصطفائی نے پشاور میں رہ کر جنرل سٹور چلایا ۔ ان پڑھ شاعر مگر کہا ” جو فاقہ کش ہیں ہمیشہ وہ فاقہ کش ہی رہیں۔ کسی کتاب میں ساحر کہیں لکھاتو نہیں“ ۔ بہت اچھے طریقے سے غریبوں کو امید دلائی ہے ۔مگر یہ صرف امید ہی ہے ۔ ” آرز¶ں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں “۔جو فاقہ کش ہیں وہ فاقہ کش ہی ہیں اور رہیں گے۔ ان کی قسمت کے لکھے کوہمارا ملکی نظام بدل سکتا ہے ۔مگر کہاں ۔ یہاں تو حال اور ہے اور حالات ہیں۔” کرو فکر تو بس اس کا کہ نظام ابھی وہی ہے ۔ ارے یہ بھی کوئی غم ہے کہ نہ مل سکیں گے ہم تم“ ( مصطفیٰ زیدی)۔ہمارے نظام کی جو خرابیاں ہیں وہ ہماری کوششوں سے تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اقبال کا شعر ہے کہ ” تقدیر کے پابند نباتات و جمادات ۔مومن فقط احکامِ الہٰی کاہے پابند“پھر کہا ”۔ ہم غریب لوگوں کی قسمت کو جیسے ان سیاستدانوں نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے ۔یہ کہیں گے اور منظوری دیں گے تو ہماری قسمت بدلے گی۔ یہ خواب ِ خرگوش میں ہیں ۔اس نیند کے مزے لے رہے ہیں۔ انسان واحد مخلوق ہے کہ اس کو قدرت نے فہم و ادراک اور سمجھ بوجھ کی دولت سے مالا مال کیا ہے ۔ ۔ اس کے اپنے پاس بھی بہت سے کام ہیں خیالات ہیں جن کو عملی جامہ پہنا کروہ اپنی حالت اچھی کر سکتاہے ۔یہاں تو یہ لوگ قومی خزانے کو عوام کےلئے چھوڑیں توبات بنے ۔میٹھامیٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی بات ہے ۔ہمارے معاشرے میں غریب غریب ہی رہے گا اور مالدار مالدارہی رہے گا۔ اب تلک تو ہم نے اس زندگی میں جی کریہی کچھ دیکھا ہے ۔عام طور سے ایسا ہے ۔ خاص طور پر اگر ایسا نہ ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ورنہ تو ہر حکومت آ کر نعرے لگا کر چلی جاتی ہے ۔ہم لوگ تو عالمی بینکوں کے شکنجے ہی سے ابھی تک نہیں نکل سکے۔کبھی ہم پر آئی ایم ایف کادبا¶ ہے اور کبھی ہمیں ایشیاءبنک ہدایات دیتا ہے کہ ایسا کرو ویسا کر و مہنگائی کردو تو قرضے کی قسط نکل آئے گی ۔گویا ہم کماتے جائیں گے اور مہنگائی کی شکل میں دیتے جائیں گے ۔جو حکومت کے گھر پہنچے گااور حکومت قرضوں کی قسطیں بھرنے کے قابل ہوگی۔ وگرنہ تواس کامطلب واضح ہے کہ ہماری حالت یہی رہے گی۔