اچھافیصلہ

راجگل وادی تیراہ قبائلی ضلع خیبر کے متاثرین کوکی خیل قوم ،عسکری حکام اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد 98 دن سے جاری دھرنے و احتجاجی کیمپ کے خاتمے کا اعلان کردیاگیا ہے۔اس سلسلے میں گزشتہ روز جمرود جرگہ ہال میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں جمرود سیاسی اتحاد کے صدر زرغون شاہ آفریدی ،قومی مشر ملک فیض اللہ جان کوکی خیل اوردیگر قومی مشران کے علاہ ڈپٹی کمشنر خیبر محمود اسلم وزیر،اسسٹنٹ کمشنر جمرود جواد علی اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔یاد رہے کہ ضلع خیبر واحد قبائلی ضلع ہے جہاں 2014کے بعد سے 2017تک چار بڑے فوجی آپریشنز کئے گئے تھے جن کے نتیجے میں وادی تیراہ سے کوکی خیل قبیلے کے ہزاروں خاندانوں نے نقل مکانی کی تھی اور وہ جمرود او رپشاور میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے تھے۔ شورش کی وجہ سے چونکہ کوکی خیل متاثرین کے گھر، مساجد، حجرے ،کھیت،باغات اور جنگلات تباہ ہوچکے ہیں اس لیے ان کا شروع دن سے یہ مطالبہ تھا کہ جو علاقے کلیئر قرار دئیے گئے ہیں ان علاقوں کو باعزت واپسی کا عمل بھی شروع کیا جائے ‘ جمرود کے چند نوجوانوں نے جماعت اسلامی کے ایک مقامی راہنما زرغون شاہ آفریدی کی قیادت میںاپنی مدد آپ کے تحت پہلے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا جس میں تمام جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی گئی اور بعد میں تین ماہ پہلے تاریخی باب خیبر کے ساتھ ملحقہ سبزہ زار میں دھرنا کیمپ لگا کر اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا شرو ع کردیا تھا۔ واضح رہے کہ قبائلی اضلاع کی تاریخ میں طویل ترین98دنوں کا دھرنا دینے والے ان مظاہرین کا تعلق آفریدی قوم کے کوکی خیل قبیلے سے ہے اور یہ لوگ وادی تیراہ میں واقع اپنے علاقے راجگل واپس جانا چاہتے ہیں۔ کوکی خیل قبیلہ جمرود کے ساتھ ساتھ وادی تیراہ میں مہربان کلے سے لے کر کرم ضلع تک کے علاقے میں آباد ہے۔ کوکی خیل قوم کا مطالبہ ہے کہ جب حکومتی اعلان کے ،مطابق تمام قبائلی علاقے کلیئر ہو چکے ہیں اور باجوڑ سے لیکر جنوبی وزیرستان تک تمام قبائلی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں جا چکے ہیں تو ان کو کیوں ان کے آبائی علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ان کامطالبہ ہے کہ اگرانھیں واپس اپنے علاقوں میں نہیں بھیج سکتی تو پھر انھیں رجسٹر ڈکر کے آئی ڈی پیز کو ملنے والی مراعات ہی دے دی جائیں ۔ ۔کوکی خیل قوم کو 2017 میں کہاگیاتھا ان کے علاقے کلیئر تو ہےں لیکن حکومت ان علاقوں میں چونکہ کچھ ترقیاتی کام کرنا چاہتی ہے اس لیئے ان کاموں کی تکمیل کے بعد ان کو ان کے علاقوں میں جانے کی اجازت دے دی جائے گی امید ہے کہ اس وقت ترقیاتی کام جو کہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں کی جلد از جلدتکمیل پر توجہ مرکوز کی جائیگی تاکہ ان کی جلداز جلد واپسی ممکن ہوسکے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ ضلع خیبر اور بالخصوص کوکی خیل قبیلے کو پاک افغان تعلقات اور روابط کے تناظر میں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہے اس لئے اس قبیلے کو بحیثیت مجموعی نظر انداز کرنا کسی بھی لحاظ سے قرین مصلحت نہیں ۔یہ قبیلہ جہاں اپنے اتحاد، قومی وحدت اور غیر متزلزل قیادت کی وجہ سے جہاں قبائلی علاقوں میں شورش کے عروج کے دور میں بھی دہشت گردی کے اثرات سے من حیث القوم محفوظ رہا ہے وہاں پاک افغان طور خم شاہراہ کی شہ رگ جمرود اور اس کے گرد ونواح سے تعلق نیز وادی تیراہ میں بھی افغانستان کے ساتھ ملحقہ انتہائی سٹریٹیجک اہمیت کے حامل علاقوںسے تعلق کے باعث بھی اس قبیلے کو کسی بھی سطح پر نظر انداز کیا جانا مناسب نہیں لہٰذا گو کہ تین ماہ سے جاری زیر بحث احتجاج فی الحال تو حکومتی یقین دہانیوں اور وعدوں پر ختم ہوگیا ہے لیکن توقع ہے کہ ہونے والے مذاکرات کی روشنی میں علاقے سے مائینز کی صفائی،متاثرہ خاندانوں کو آئی ڈی پیز کا درجہ اور مراعات دینے کے ساتھ ساتھ علاقے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا کر متاثرہ خاندانوں کو جلد از جلد اپنے علاقوں میں واپسی اور آبادکاری کی اجازت دی جائے گی۔ایسے حالات میں کہ جب پاک فوج کی بیش بہا قربانیوں سے قبائلی علاقہ جات میں امن و امان کی صورتحال بہترین ہوگئی ہے اور یہاں پر ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہے اگران قبائل کو واپس جانے کی اجازت مل جائے تو یہ نہ صرف ترقیاتی کاموں میں حکومت کا پورا ہاتھ بٹا سکیں گے بلکہ ماضی کی طرح یہ علاقے میں امن قائم کرنے میں بھی اداروں کا بھرپور ساتھ دیں گے جس سے یہ مشکل مرحلہ آسانی سے سر ہو جائے گا۔