صاحبان قدردان زندہ مرغی کی فی کلو قیمت 176روپے ہے مگر یہ افواہ ہے اور کسی دوست نے اڑائی ہے یہ تو دو روز پہلے کی خبر ہے ۔پھر ہمارے ہاں کوئی خبر خاص طور پر اشیاءکی قیمتوں کی نیوز ایک دن بعد باسی ہو جاتی ہیں۔اسی لئے کہتے ہیں کہ صحافت کی دنیا میں گزشتہ روز کے اخبار سے زیادہ پرانی چیز اور کوئی نہیں ۔کچی چکن بوٹی کا ریٹ 185روپے ہے یہ بھی جھوٹی خبر ہے ۔اسی لئے کہتا ہوں کہ آج دیکھیں ۔جب آپ اخبار پڑھ رہے ہیں کہ آج کا ریٹ کیا ہے ۔جب تک یہ کالم تحریر کیا جا رہاہے مرغی کی فی کلو قیمت 197روپے ہے ۔پھر کیامعلوم آج کچھ اور کل کچھ ۔ شادی ہالوں کے دروازوں پر لگے ہوئے سات ماہ قبل کے موٹے تالے ٹاک سے ٹوٹ گئے ہیں ۔پھر وہی گہما گہمی دیکھی جا رہی ہے جو وائرس سے پہلے تھی جس کا جو جی چاہے کر رہا ہے۔اب ہر جگہ تو پولیس نہیںکھڑی ہوسکتی ‘شادی ہالوں میں اس وقت کھانوں میں مرغی کا آئٹم بہت زیادہ چل رہا ہے۔سو جب طلب بڑھے گی تونرخ بھی اوپر جائے گا۔ لاک ڈا¶ن میں جب مرغیاں نہیں خریدی جا رہی تھیں تو دکاندار ہاتھوں کو بغلوں میں دابے گاہکوں کی راہ دیکھتے رہتے مگر اب تو چکن کی بہار ہے اور دکاندار ہے ۔بھیا مرغی اگرچہ باقاعدہ طور پر اپنے بازو کے ساتھ دو پر بھی رکھتی ہے ۔مگر کیا ہے کہ وہ کبوتر کی طرح اونچا نہیں اڑ سکتی۔ بہت ہوا تو کسی ایک دیوار سے پھلانگ کے دوسری دیوار پر چڑھ بیٹھے گی مگر اب تو وہی کم پرواز مرغی کی اڑان اتنی اونچی ہے کہ شاعری میں شاہین کو بلند پروازی کی مثال دینے سے بہتر ہے کہ مرغی کی مثل قرار دیں ‘ چلو شاعری میں اب مرغی کی بلند پروازی کے چرچے ہوں کیونکہ مرغی کو پر لگ گئے ہیں اور وہ اونچی اڑان میں ہے ۔گوشت مہنگا تھا تو غریب غربا ءہفتہ میںکہیں ایک آدھ مرتبہ سو سے کم فی کلو کا چکن خرید لیتے بلکہ آنے والے دنوں کی غربت کے ڈر سے بعض حضرات نے تو اس کم ریٹ کی مرغیاں ذبح کروا کے ٹوٹے بنوا کے فریج میں ڈھیر لگا دیئے تھے مگر اب کہاں اب تو قصاب کی دکان پر ڈوری کے ساتھ لٹکتی ہوئی بچوں کے سکول والی سلیٹ پر لکھے ہوئے فی کلو کے نرخ کو دیکھ کر چپ کر کے آگے بڑھنے اور گھر جانے ہی میں بہتری ہے کیونکہ اگر سبزی کی دکان پر پہنچے تو وہاں کون سا آپ کا استقبال کیا جائے گا۔ وہاں سبزی کی قیمت پوچھیں گے تو سوچ میں پڑ جائیں گے کہ کم پیسوں میںکیا خریدوں اور کیا نہ خریدوں ‘یہ پشاور ہی کی بات تو نہیں ‘چارسدہ ‘مردان اور دیگر شہروں میں بھی ایسا ہے ۔ ودود صاحب چارسدہ سے مراسلہ بھیجتے ہیں کہ غریب پر آپ نے کالم لکھا تو شکر ہے کہ آپ پشاور سے باہر بھی نکلے ۔میں نے عرض گزاری کہ صرف پشاور ہی میرا نہیں اور نہ اس کے مسائل صرف اسی کے مسئلے ہیں ۔ جو لکھا جاتا ہے اس کا تعلق پشاور اور اس کے اطراف کے شہروں سے بھی ہوتا ہے۔اب قیمتوں کی گرانی کے ڈھول تو چارسدہ میں بھی بج رہے ہیں ۔ چارسدہ کوئی پرایا تو نہیں وہاں ہمارے عزیز رشتہ دار دوست یار مہربان اور امید گاہ رہتے ہیں ۔ ہم خود وہاں کے قبرستان والے سرکاری کالج میں دو سال پڑھاکر آئے ہیں ۔ پھر وہاں کے دوستوں کے گھروں میں تُو مان نہ مان میں تیرا مہمان بن کر کھانے کھاتے رہے ہیں ۔مرغی کی قیمت اگر بڑھ گئی ہے تو قیمتوں کا یہ سیلاب صرف پشاو رہی میں تو نہیں ہر جگہ جہاں آبادی کے دریا بہتے ہیں جہاں کی مچھلیاں روٹھ کر بڑے دریا¶ں میں جا چکی ہے ۔ اکثر کو تو ہم نے نکال نکال کر چن چن کر سیخوں پر چڑھایا او رکھایا ہے ۔دریا تک خالی اورخیالی کر دیئے ہیں۔ہر جگہ گرانی کا ایک ہی عالم ہے ۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ فرمان جاری ہوا ہے کہ ہم مہنگائی ہوجانے پر ایکشن لیں گے۔ ارے کون سا ایکشن پھر لے گا کون ۔ اب تک کس نے لیا ۔یہ سب کچھ کسی افسانہ نگا ر کے افسانے تو ہیں۔کوئی ایکشن نہیںہوگا۔ اس قسم کی باتیں ایک کان میں ڈالو اور دوسرے سے نکالو۔ چینی آٹا سبزی گوشت کیا کیا کچھ مہنگا نہیں ۔یہ لوگ کیا کریں گے کیا چیزوں کو سستا کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے بیسیوں بار لئے جانے والے قرضہ کے اوپر ایک اور قرضہ لیں گے۔