اُمہ: اِجتماعی مفاد

سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے ممکنہ قیام اور اعلان کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر جاری بحث کے کئی پہلوو¿ں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں ماضی میں بھی ہو چکی ہیں اور جہاں کہیں اِس قسم کی کوششیں ہوتی ہیں وہ اگرچہ سوفیصد کامیاب نہ بھی ہوں لیکن کچھ نہ کچھ اور کہیں نہ کہیں ایسی پیشرفت موجود رہتی ہے جس سے متعلقہ ممالک ایک دوسرے سے رابطوں میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے مو¿قف کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بڑی کوشش مارچ 2002ءمیں اُس وقت منظرعام پر آئی تھی جب بیروت میں عرب ممالک کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سعودی عرب نے اپنے ”امن منصوبے“ کی تفصیلات سے اپنے ہمسایہ و اتحادی ممالک کو آگاہ کیا۔ مذکورہ تفصیلات سعودی عرب کے ولی عہد (مشیر برائے خارجہ امور) عادل الجبیر نے بیان کی تھیں۔ یہی عادل الجبیر سعودی عرب کے موجودہ ’وزیرِ خارجہ‘ ہیں اور اُن کے اول الذکر ’امن منصوبہ‘ عرب دنیا کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بنیادی و مرکزی دستاویز ہے‘ جسے ’عرب لیگ‘ نے بھی منظور کر رکھا ہے۔ بنیادی طور پر مذکورہ حکمت عملی میں اسرائیل اور تمام عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی مکمل بحالی کے بدلے اسرائیل کا تمام مقبوضہ علاقوں‘ غربِ اردن‘ غزہ کی پٹی‘ گولان کی پہاڑیوں اور لبنان کے مقبوضہ علاقوں کی سرزمین واپس کرنی ہے جو اُس نے فوجی طاقت کے ذریعے چھین رکھی ہے اور مذکورہ علاقوں سے مسلمانوں کو بیدخل کر رکھا ہے یا وہاں رہنے والوں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر کے عرصہ¿ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اسرائیل کی خواہشات کے برعکس عرب ممالک ”مشرقی یروشلم“ کو فلسطینی دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں اور جس انداز میں بات چیت آگے بڑھ رہی ہے اُس میں اِس بات کا امکان پیدا ہوا گیا ہے کہ یروشلم کے دو حصے کر دیئے جائیں۔ مسجد اقصیٰ اور گنبد پر مبنی حصہ فلسطین جبکہ دیوار گریہ اور گرجا گھر پر مشتمل حصہ اسرائیل کا دارالحکومت بن جائے۔ عرب دنیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض اِن مطالبات اور مبینہ امن منصوبے کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے ‘منصفانہ حل‘ قرار دیتی ہے جو 1948-49ءمیں اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ کی وجہ سے اپنے گھر بار سے محروم ہیں اور دربدر کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ مقبوضہ علاقوں پر اسرائیل کی ریاست قائم کر دی گئی‘ جسے کئی عالمی طاقتیں بشمول امریکہ جائز تسلیم کرتا ہے۔سعودی عرب منصوبے کو قابل عمل اور پرامن حل بیان کرتے ہوئے اِس کی بین الاقوامی سطح پر حمایت و پذیرائی ہوتی رہی ہے اور ایک وقت میں تو ایسا لگنے لگا کہ جیسے عرب اسرائیلی تنازعہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا مگر سعودی منصوبے کے قابل عمل ہونے اور اِس پر دستخط (تمام عرب ممالک کے اتفاق رائے) سے قبل حماس نے ایک اسرائیلی ہوٹل پر بم حملہ کر کے تیس افراد کو جاں بحق اور سو سے زیادہ کو زخمی کر دیا جس کے بعد اسرائیل کی حکومت داخلی و عالمی دباو¿ کے تحت امن کوششوں سے پیچھے ہٹ گئی اور وہ کوششیں جو اپنے منطقی اَنجام کے قریب تھیں‘ رُک گئیں۔ آج سعودی عرب میںسیاحتی ترقی کے لئے وہ سبھی اقدامات و انتظامات کئے جا رہے ہیں‘ اب صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ بھی بدل چکا ہے۔ یہ تبدیلی‘ یہ ترقی اور روشن خیالی اُس وقت تک ادھوری اور بے معنی رہے گی جب تک عرب دنیا کا حصہ فلسطینی مسلمانوں کو اُن کی اپنی ریاست نہیں مل جاتی اور اسرائیل بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی آباد کاریوں سے دستبردار نہیں ہو جاتا۔ اِسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور فلسطینی علاقوں پر قبضے کے جاری عمل کو روکنے کی ضرورت ہے۔ متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ اُردن اور مصر سب نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کر لئے ہیں اور اَب اِن کے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم ہیں بلکہ اُردن اور مصر نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دونوں خلیجی ممالک نے بڑی تیزی سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی اور دیگر شعبوں میں دوطرفہ تعلقات بہتر کئے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ سعودی عرب یا دیگر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کس قسم کے تعلقات استوار کرنے کے خواہشمند ہیں بلکہ اصل نکتہ یہ ہے کہ بظاہر ’بالادست اسرائیل‘ اِس پوری صورتحال سے اپنے مستقبل اور مفادات کے لئے کیا کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ عرب دنیا اور مسلم ممالک کو اپنی اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو اجتماعی تناظر میں دیکھنا چاہئے کیونکہ ایسی کوئی بھی کوشش ناکام و ناکافی رہے گی جس میں دیگر تمام مسلمان ممالک شامل نہ ہوں۔ ایک تیر سے دو شکار ممکن ہیں۔ مسلمان ممالک اگر ایک ہوں‘ ’اُمہ‘ کی تشکیل ہو جائے تو یہ طاقت صرف اسرائیل ہی نہیں دیگر تنازعات کے حل میں بھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم‘ دفاعی طاقت اور کامیاب عالمی سفارتکاری کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری کوئی صورت نہیں رہی لیکن مسلم اُمہ کا اتحاد و اتفاق ضروری ہے تاکہ فلسطینی ریاست کا دفاع اور قیام یقینی بنایا جا سکے جس میں درحقیقت پوری مسلم اُمہ کا مفاد پنہاں ہے۔