افغان طالبان کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ ایک غیرملکی فوجوں کا انخلا ءاور دوسرا اسلامی حکومت کا قیام‘ اگرچہ انہوں نے امریکہ سے امن معاہدہ کیا اور اب افغان سول سوسائٹی اور انتظامیہ سے بھی امن مذاکرات کررہے ہیں مگر جب تک ان کے یہ دونوں مقاصد حاصل نہیں ہوتے وہ جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے ہتھیار رکھنے کے بعد ان کا دباو¿ برقرار رہے گا نہ ان کی بات کا وزن اور نہ وہ ضرورت پڑنے پر طالبان کو دوبارہ جنگ شروع کرنے پر آمادہ کرسکیں گے‘امکان ہے کہ اگر ان مقاصد کے لئے ضروری ہوا تو طالبان مغرب مخالف گروہوں کو کنٹرول کرنے میں بین الاقوامی برادری کی مدد بھی کریں گے اور افغانستان میں ہونے والی سیاسی و آئینی پیش رفت کو بھی چند اصلاحات و ترامیم کے ساتھ مان لیں گے۔طالبان اپنی پہچان، صلاحیت اور ڈسپلن کے بارے میں بڑے حساس ہیںجن نکات پر وہ مفاہمت کرسکتے ہیں وہ ابھی انہوں نے اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لئے ظاہر نہیں کئے البتہ وہ امن معاہدے کی پابندی کا یقین دلا رہے ہیں۔ بظاہر جب تک ضروری نہ ہو وہ ان نکات کو پبلک نہیں کریں گے کہ ان کا افشاءطالبان کے نظم اور اتحاد کو خطرے سے دوچار کرسکتا ہے ‘طالبان کے سینئر رہنما ملا فضل، جو گوانٹاناموبے میں قید رہے اور اب مذاکرات کاروں میں شامل ہیں، نے رواں برس مارچ میں ایک اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ طالبان ہی نئے حکمران کا انتخاب کریں گے اور مکمل طور پر شرعی حکومت قائم ہوگی لیکن ان کے سینئر رہنما اور گوانٹاناموبے کے قیدی خیراللہ خیر خواہ نے بارہ جولائی کو الجزیرہ کو انٹرویو میں کہا کہ طالبان افغانستان پر قبضہ نہیں چاہتے اور یہ کہ افغان معاشرہ دوہزار ایک سے اب کافی بدل چکا ہے‘ طالبان بظاہر علماءکو حکومتی نظام میں بنیادی حیثیت دینا چاہتے ہیںلیکن ساتھ ہی انہیں پتہ ہے حالات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ چنانچہ اگر نوے کی دہائی والا نظام ممکن نہیں تو پھر کوئی مناسب حد تک مرکزیت والا مستحکم نظامِ حکومت ہو جو ان کے ویژن کے مطابق قانون کی حکمرانی قائم کرسکے۔ وہ اسمبلی کے ساتھ ایک طاقتور مرکزی امیر کے حق میں ہیں۔ کیا یہ افغان صدر کا عہدہ نہیں ہوسکتا؟ پردے کے ساتھ خواتین کے پیشے اور تعلیم کا حق بھی انہیں منظور ہے‘ یہی وجہ ہے انہوں نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں جدید تعلیم، جدید ٹیکنالوجی اور ڈونرز کو کام کی اجازت دی ہے ۔ تبدیل شدہ صورت احوال میں طالبان بھی اپنے موقف اور طریقہ کار میں متوقع تبدیلی کے لئے مشورے کررہے ہیں ‘سابق طالبان امیر مولوی اختر منصور نے امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہونے سے قبل طالبان کمانڈروں کو مشورے کے لئے بلایا تھا کہ طالبان بیرونی دنیا سے تعلق، جدید تعلیمی نظام اور تعلیم نسواں کے حامل افغانستان پر مشورہ دیں۔ یہ سلسلہ نئے امیر مولوی ہیبت اللہ اخوندزادہ نے انسانی حقوق‘ محتاط جنگ اور اپنے زیرتسلط علاقوں میں افغانوں سے اچھے تعلقات جیسے امور سمیت جاری رکھا۔ دوحا معاہدے کے بعد بھی طالبان نے اپنے رہنماو¿ں اور جنگی کمانداروں سے بین الافغان مذاکرات اور بعد از امن نظام پر مشورہ کیا۔ بیس مئی کو بھی انہوں نے جنگجوﺅں کو اتحاد اور دوسری طرف امن، مصالحت اور استحکام کے لئے کام کرنے کی دعوت دی۔طالبان غیرملکی جنگجوﺅں کو پسند نہیں کرتے لیکن انہیں اپنے لئے خطرہ نہیں سمجھتے اور انہیں مستقبل میں حکومت کی نگرانی میں ایک جگہ اکٹھا کرکے پرامن زندگی گزارنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں کہا تھا‘ مستقبل کی افغان حکومت بارے ملک کے اندر اور باہر خدشات ہیں اور یہ بھی کہ افغانستان ایک دفعہ پھر علاقائی اور عالمی امن کےلئے خطرہ نہ بن جائے۔ ہمیں یقین ہے غیرملکی مداخلت اور دباو¿ سے آزاد فضا میں بین الافغان مذاکرات میں مشترکہ افغان مستقبل پر اتفاق رائے ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم شرکت پسند نظام جس میں ہر افغان حصہ لے سکے چاہتے ہیں‘ ہم تمام افغانوں کی مدد سے یقینی بنائیں گے کہ افغانستان استحکام کا مرکز ہو اور یہاں سے کوئی خطرہ محسوس نہ کرے۔ بحالی اور تعمیر نو میں بین الاقوامی برادری کا مسلسل تعاون ضروری ہے‘ ہم پرامن و مستحکم افغانستان کےلئے بیرونی دنیا سے تعاون بلکہ شراکت کے لئے بھی تیار ہیں۔ ہمارا افغانستان بین الاقوامی برادری کا ایک ذمہ دار ملک ہوگا۔ ہم اسلامی قوانین کے مطابق تمام بین الاقوامی معاہدوں کا احترام کریں گے ۔ دوسرے ممالک بھی ہماری آزادی اور سا لمیت کا احترام کریں‘ طالبان اپنے نام سے جنگ اور مذاکرات میں موجود ہیں۔ طالبان غیرملکی مداخلت اور دباو¿ سے پاک ماحول چاہتے ہیں مگر اندرونی طور پر دباو¿ سے آزاد ماحول یقینی بنانا اور اختلاف رائے کو برداشت کرنا بھی ضروری ہے۔