ہم تو ایسے دوراہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں کہ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ کس راستے کو اختیار کریں۔کیونکہ معاشرہ روز بروز ترقی کی طرف مائل ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب بچوں کے ہاتھ میں موبائل دیا جائے یا نہیں ۔ کیونکہ یہاں تو دو سال کابچہ بھی موبائل کے بغیر رونے لگتاہے۔ ماںنے اس کو عادی کر دیا ہے۔ جب وہ اپنے کام کاج میں مصروف ہو تی ہے تو بچے کی ریں ریں سے بچنے کے لئے اسے موبائل پر کارٹون لگا کر دیتی ہے ۔بچہ موبائل ہاتھ میں لے کر خاموش ہو جاتاہے ۔اب تو ماں کو بھی عادت پڑ جاتی ہے کہ بچے کو اس طرح چپ کروایا جا سکتا ہے ۔ پھر اس کے بعد وہ جب تک موبائل نہیں لے گا اس کا رونا بند نہیں ہوگا۔ سو اسی وجہ سے اب بچوں سے موبائل چھپانا مشکل ہو چلاہے۔پھر اس مسئلہ میں ہر عمر کے بچے اور بچیاں ہیں۔ جن کے پاس اپنے اپنے موبائل ہیں۔ یہ خناس ہمارے مزاج میں اور ہمارے ارد گرد اتنا رچ بس گیا ہے کہ اب اس سے پیچھا چھڑانامشکل ہو چکا ہے۔ پہلے جس کے پاس موبائل نہ تھا وہ آدمی اچھا لگتا تھا مگر اب جس نے یہ آلہ تھام نہ رکھا ہو اچھا نہیں لگتا۔ جس کے پاس ٹچ موبائل نہ ہو وہ غریب سمجھا جاتا ہے ۔لہٰذا اپنی غریبی چھپانے کے لئے معاشرے کی نگاہوں کو دھوکا دے کر اپنے پاس موبائل رکھنا پڑتا ہے۔ پھر خدا لگتی بات ہے کہ موبائل آج کل ہر ایک کے پاس ہو یہ بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ اس ٹچ موبائل نے انسان کی بہت سی مشکلات کو دور کر دیا ہے۔موبائل ہوگا تو خاندان والوں کے ساتھ بھلے نہ ملے او ردوستوںسے روز یا ہفتہ کے بعد بھی ملاقات نہ ہو تو سمجھو ان کے درمیان کوئی دوری حائل نہیں ۔جس وقت چاہا ان کے ساتھ خواہ وہ ملک کے کسی بھی کونے میں ہوں رابطہ کرنا آسان ہے ۔موبائل نہیں تو گویا آدمی سکرین سے آ¶ٹ ہے ۔مگر یہاں سوال بڑوں کانہیں یہاں تو بچوں کے معاملے پر بحث کادروازہ کھولا ہے۔بچوں کو اپنے ہوم ورک کےلئے اور اپنی پڑھائی لکھائی کے لئے موبائل دینا بہت ضروری ہو چلا ہے ۔مگر دل میں ڈر ہے کہ بچے کہیں اس کا استعمال غلط طور پر نہ کریں ۔لاک ڈا¶ن میں آن لائن کلاسیں ہوئیں۔ پھر براہِ راست ہوئیں۔ جو بہت ضروری تھیں۔ وہ بچیاں جنھوں نے موبائل کی شکل بھی نہ دیکھی تھی ان کو بھی امتحان میں اچھے نمبروںسے کامیابی حاصل کرنے کے لئے والدین نے ٹچ موبائل لے کر دیا۔اب تو خیر ٹک ٹاک پر پابندی لگی ہے ۔ مگر ٹک ٹاک کے شوقین اور چالاک لوگ اس کابھی حل نکال لیں گے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اندر کی تربیت ہونی چاہئے کہ بندہ موبائل پر قابلِ اعتراض مواد نہ دیکھے ۔ا س چیز کوکنٹرول بھی تو نہیں کیا جا سکتا ۔بچے سے موبائل چھین لیں تو وہ اس صدمہ کی وجہ سے اپنی جان بھی لے لیتا ہے۔اگر دیں تو وہ اس کا ناجائز استعمال بھی کر سکتا ہے۔اب گھر کے بڑے پھنس گئے ہیں کہ سائنس کی اس نئی ایجادکا کیا کریں۔ کیونکہ اس میں تو ان گنت فائدے ہیں ۔ خود بچوں پر نظر رکھنے کو ان کے ساتھ رابطہ رکھنے کو ان کو ایک عدد موبائل لے کر دینے میں حرج نہیں۔مگر اس کا کیا کریں کہ بچہ موبائل کو غلط طور پر استعمال کرے گا ۔ اگر موبائل چھین لیا جائے تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سر جو ڑ کر ایک موبائل پر نگاہیں جماکر بیٹھا ہوگا۔لہٰذا اس سلسلے میں سوچنے سمجھنے کامقام ہے کہ اب کیا کیا جائے۔کیونکہ تعلیم کامعاملہ ہو تو موبائل سے بہتر کوئی اور چیز نہیں ۔ وہ کون سا اچھا مواد ہے جو اس میں نہیں ہے ۔مگر دوسری جانب وہ کون سا غلط مواد ہے جو اس میں چھپا ہوا نہیں ۔گوگل نے تو علمی میدان میں وہ وہ فتوحات کر رکھی ہیںاس کے بغیر طالب علم کی زندگی ناکام ہے ۔ پھر اس کا انتخاب مشکل ہو جاتا ہے کہ اب کون سی موویاں دیکھی جائیں۔ گوگل کو سرچ کر کے تو ہر میدان کے ایم فل سکالر تھوڑی زیادہ محنت کر کے آسانی سے اپنی مشکلات کا حل نکال سکتاہے۔پہلے تو امتحان ہال میں کیلکولیٹر تک لے جانے کی اجازت نہ تھی مگر اب کیا ہوا ۔اب تو کیلکولیٹر لے جانا نہ صرف ضرور ی ہے بلکہ جو آتا جاتا ہے وہ اسی کے دم قدم سے ہے۔اگر گوگل سرچ نہ ہوتا تو آدھے سے زیادہ لوگ ایم فل نہ کرتے ۔سچ ہے کہ اگر بچوں کو یہ سہولت مہیا نہ کی گئی تو وہ اس مقابلے کے دور میں پیچھے رہ جائیں گے۔ مسئلہ یہ تو نہیںمسئلہ تو یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ اگر آپ ان کو موبائل نہ دلائیں تو وہ کہیں سے بھی چھپ چھپا کر اپنے لئے ا س کابندوبست کر سکتے ہیں۔