چارسدہ میں معصوم بچی کا بہیمانہ قتل دہشت گردی کی اندوہناک واردات تھی ایک ہفتے کے اندر مجرم پکڑا گیا اُس نے اقرار کیا جرم میں استعمال ہوانے والا آلہ قتل برآمد ہوا۔6اکتوبرکے دن واردات ہوئی 10اکتوبر کو پولیس نے اپنی تفتیش کے نتائج سے پریس ،عوام اور حکومت کو آگاہ کیا تاہم اس کے بعد کیا ہوگا ،اگر روایتی طریقہ کار کے مطابق معاملات چلتے رہے تو اس کا مقدمہ 6ماہ بعد عدالت میں پیش کیا جائے گا۔7سال مقدمہ ماتحت عدالت میں چلے گا کم از کم 23 پیشیوںکے بعد مقدمے کا فیصلہ ہوگا پھر ہائی کورٹ میں اپیل کا مرحلہ دس سال میں طے ہوگا اس کے بعدسپریم کورٹ میں کم از کم 15سال یہ مقدمہ چلے گا یوں32یا33سال بعدفیصلہ آئے گا۔ فیصلہ جو بھی آئے چارسدہ کے لوگ معصوم بچی کے قتل کا واقعہ بھول چکے ہونگے اوراس گھناﺅنے جرم کے بعد کئی ایسے گھناﺅنے جرم پھر سرزد ہوچکے ہونگے۔آج ہمارامعاشرہ وہی ہے جس کی پیش گوئی فلسفی شاعرغنی خان نے 1963کی ایک نظم میں کی تھی۔نظم کے ایک شعر کاآزادترجمہ یہ ہے”پوری دنیا تاریک جنگل بنے گی لوگ ایک دوسرے کا گوشت نوچ کر کھائینگے انسان کا گزر جس راستے پرہوگا جنگلی درندے اس راستے سے پناہ مانگیں گے۔ 2020 کے 10مہینوں میں نوشہرہ، پشاور، چارسدہ،مانسہرہ،ایبٹ آباد اور دیگر شہروںمیں جو وارداتیں ہوئی ہیں ان میں سے ہر واردات درندگی کا بدترین نمونہ ہے ملک کے مختلف حصوں سے بالعموم اور خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سے باالخصوص ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ کسی مقتول کے وارث نے عدالت کے احاطے میں مجرم کی ضمانت ہونے کے بعد فائرنگ کرکے اس کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ‘ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ مجرم ضمانت ہونے کے بعد گھر پہنچنے سے پہلے مقتول کے ورثا نے اس کی جان لے لی ان واقعات میں خوف اور دہشت کا پہلو بھی ہے عدالت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عدم اعتماد کا پہلو بھی ہے۔عوام کو بخوبی معلوم ہے کہ کچھ عرصہ قبل دہشت گردوں اور امن و امان کے دشمنوں کو فوجی عدالتوں نے تیزی کے ساتھ مقدمات چلا کرکیفر کردار تک پہنچانا شروع کیا تو ملک میں امن قائم ہوا تھا جرائم میں کمی آئی تھی، تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے شور مچایا اور فوجی عدالتوں کے قانون کو ختم کردیا گیا‘انسانی حقوق کے علم برداروں کو مقتول مرد،مقتولہ عورت یا بےدردی سے قتل ہونے والے معصوم بچوں اور بچیوں پر کبھی ترس نہیں آیا ان کو ترس آتا ہے تو مجرم کو سزا ملنے پر بہت ترس آتا ہے‘سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ہماری حکومت ایک بڑی واردات کے بعد مجرموں کو سزا دینے کے لئے اگلی واردات کا انتظار کیوں کرتی ہے؟اب وقت آگیا ہے کہ بینج اور بار مل کر اس پر غور کریں اور ایسا قانونی طریقہ کار سامنے لائیں کہ چارسدہ کی معصوم بچی کے قتل جیسے گھناونے جرائم میں ملوث مجرم ایک ہفتے کے اندر سولی پر لٹکاے جائیں اگر ہفتے میں ممکن نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ ایک مہینے کے اندر عوام ایسے مجرموں کو سزائے موت دیتے ہوئے دیکھ لیں معاشرے کو درندگی سے پاک کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کیونکہ جب تک معاشرے میں سزا وجزا کا عنصر غالب نہیں رہے گا اسی طرح لاقانونیت اور امن وامان کا لاحق خطرات کی موجودگی میں وارداتیں ہوتی رہیں گی اس لئے قانون کی عمل داری قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ جرم کرنے والے کو مختصر عرصے میں سزا ملے اور دوسروں کے لئے عبرت کا سامان بنے تاہم جس طرح کے حالات جا رہے ہیں اور جرم کی سزا ملنے سے پہلے ہی امیدیں دم توڑ دیتی ہیں تو ایسے میں مذکورہ بالا واقعات کا پیش آنا کوئی عجیب بات نہیں اور شاید یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے اس لئے موثر اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔