ترکی کا خطے میں بڑھتا ہوا اثر ورسوخ

مشرقی بحیرہ روم کے تمام ملک اپنے ساحلوں سے 200 کلومیٹر تک اپنے سپیشل اکنامک زون کے دعویدار ہیں اور ایک دوسرے پر اپنے زون میں مداخلت کا الزام لگاتے آئے ہیں۔ اس تناظر میں جہاںمصر، غزہ، شام، لبنان اور قبرص کے ساحلوں کے قریب سمندر میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت نے پرانے اور حل طلب مسائل کو نئی جہت دی ہے وہاں اس نئی صورتحال میں ترکی اس خطے میں ایک اہم کھلاڑی بن کر ابھراہے۔اس صورتحال کو آرمینیا اور آزربائیجان کے درمیان جاری جنگ نے اور بھی دھماکہ خیز بنا دیا ہے جس میں ترکی کھل کر آزربائیجان کی پشت پر نہ صرف کھڑا ہے بلکہ اس کو مکمل سپورٹ بھی دے رہاہے۔واضح رہے کہ شام میں اپنے پتے کامیابی سے کھیلنے کے بعدترکی کچھ عرصے سے لیبیا میں بھی اہم کردارادا کررہا ہے ۔بحیرہ ایجئن، سپیشل اکنامک زونز، قبرص، شام اور لیبیا میں ترکی ایک الگ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس پر مہر تصدیق جہاںآرمینیا کے خلاف آزربائیجان کی حمایت نے ثبت کردی ہے وہاں ترکی کے صدررجب طیب اردوان کے گزشتہ دنوں دیئے جانے والے اس بیان نے بھی ترکی کے مستقبل کے عزائم کی وضاحت کردی ہے جس میں انہوں نے ماضی میں خلافت عثمانیہ کے زیر قبضہ علاقوں کو واپس ترکی کے زیر اثر لانے کا عندیہ دیا ہے۔ کچھ یورپی ملک بھی بحیرہ روم میں ترکی کے عزائم سے خائف ہیں اور فرانس کی قیادت میں سات ملکوں کا حالیہ اجلاس اس کا ثبوت ہے۔تیسری جانب قفقاز کے خطے میں آرمینیا اور آزربائیجان کے درمیان جاری گھمسان کی جنگ میں ترکی کوئی لاگ لپیٹ رکھے بغیر جس کھلے انداز میں آرمینیا کے خلاف آزربائیجان کا حمایتی بن کر سامنے آیا ہے اس نے بھی اگر ایک طرف آرمینیا کے اتحادی روس کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے تودوسری جانب ترکی کایہ جارحانہ رویہ خود اس کے نیٹو کے اتحادیوں کو بھی ہضم نہیں ہورہا ہے۔در اصل جب سے ترک صدر رجب طیب اردوان یورپی یونین کی رکنیت سے مایوس ہوئے ہیںان کی پالیسی میں واضح تبدیلی آئی ہے ۔ طیب اردوان کو یقین ہوگیا ہے کہ ترکی چاہے کچھ بھی کرلے یورپی یونین اس کو اپنی ممبر شپ دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوگا جس کی بنیادی وجہ ترکی کا مسلم اکثریتی ملک ہونا ہے۔ترکی اس وقت اپنے ہمسایہ یونان، قبرص، شام، عراق، مصر، فرانس اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بگاڑ چکا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات پہلے جیسے پرجوش نہیں رہے، روس کے ساتھ کہیں شراکت داری ہے تو کہیں رقابت۔ اس کے باوجود ترکی خطے میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے پتے کامیابی سے کھیل رہا ہے۔ نیٹو کے جنوب میں ترکی کا محل وقوع سٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے، ترکی میں امریکی فوجی اڈہ ہے، شام اور عرب ملکوں سے لاکھوں تارکین وطن کو ترکی جب چاہے یورپ میں دھکیل سکتا ہے اور ان سارے پتوں کو طیب اردوان بہت ہوشیاری سے استعمال کر رہے ہیں۔خطے میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے متعلق مبصرین کاکہنا ہے کہ تمام تر مخالفت کے باوجود ترکی پہلے سے مضبوط ہوا ہے، ترکی نے خودانحصاری پر توجہ دے کرقومی مفاد میں پالیسیاں بنائیں، شام اور لیبیا میں اگر ترکی اور روس آمنے سامنے ہیں تو بحیرہ روم میں دونوں کے مفادات سانجھے ہیں اور دونوں برابری کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ اسی طرح جب امریکا نے ترکی کو ڈرونزاورجدید میزائل سسٹم دینے سے انکار کیا تو ترکی نے اپنے ڈرونز خود بنائے جب کہ میزائل سسٹم امریکی اعتراضات کے باوجود روس سے خریدا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک کمپنیاں سمندر میں گیس تلاش کرنے اوراسے ملکی مارکیٹ میں سپلائی کرنے کے قابل بھی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب اسرائیل نے قومی سا لمیت کے لیے خطرہ قرار دئیے گئے ملکوں کی فہرست میں ترکی کو سرفہرست رکھا ہے۔ لہٰذا اس تمام تر صورتحال کے تناظر میںیہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مشرق اور مغرب کے سنگم پر واقع جدید ترکی نہ صرف ہر طرح کے علاقائی خطرات سے نمٹنے کے لیئے تیار ہے بلکہ وہ آگے بڑھ کر یورپ،ایشیا اور افریقہ میں پھیلے ہوئے 56 اسلامی ممالک کی قیادت کی اہلیت وصلاحیت بھی رکھتا ہے۔