جانے یہ محرومی کی وجہ سے ہے یا کسی بخل کی وجہ سے ۔بعض لوگ بعض لوگوں کے پیچھے ہمہ وقت لگے رہتے ہیں ۔ کسی کو تکلیف دینا ہو یا اسے رنج پہنچانا ہو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔یہ کوئی اچھی بات نہیں۔اب کسی کو خدا کا دیا بہت کچھ ملا ہے تو اس میں ہمارا تمھارا کیا۔یہ تو تقسیم ہے ۔جسے جتنا دے جیسے دے جہاںسے دے۔ اس میں تو کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ جس کو نہیں ملا وہ صبر کرے اور جسے ملا ہے وہ خرچ کرے ۔شکر بجالائے ۔ جس کو اگر ملا ہوا ہے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ یہ صرف اس کے اکیلے کے لئے ہے ۔ اسے شاید بھول جاتا ہے کہ یہ تو اس کے امتحان کے لئے ہے ۔ورنہ تو اسے ان لوگوں کی طرح بنایا جا سکتا تھا جن کی جھولیاں خالی ہیں یا اگر ان میں کچھ ہے تو وہ ان کی ضرورت سے کم ہے ۔ ایک وقت کھاتے ہیں اوردوسرے وقت بھوکے سو جاتے ہیں۔ ” لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے ۔ اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے “۔اس دنیا میں نہ کوئی اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی خوشی سے جاتا ہے۔ مقدر کے آگے انسان کی کیا چلتی ہے ۔ یہاں تو اس کی چلتی ہے جس کا سکہ پوری کائنات میں چل رہاہے ۔وہ جسے زیادہ دے جسے کم دے۔ ہمارے معاشرے میں تواب جانے کس وجہ سے ایک خود غرضی کا عالم ہے۔ یہ عالم اپنی انتہا کو پہنچا ہواہے ۔اتناکہ اب تو لوگ کسی کو دعا بھی نہیں دیتے ۔ کیونکہ اگر میری دعا کی وجہ سے کل کو یہ اچھاہوگیا اور صاحبِ اختیارہوا تو خود ہمارے لئے دردِ سر بن جائے گا۔ پھر مقابلے کی فضا اتنی زیادہ ہے کہ وہ سوچتا ہے کل کو اس کا معیارِ زندگی بہتر ہوگیا تو کل جو ہماری منتیں کرتا تھا آنے والے کل میں نہ ہو ہمیں اس کی منتیں کرنا پڑیں۔فراز کا شعر ہے ” اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں۔ خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ“۔ اس شعر میںبہت اچھی بات کہی گئی ہے ۔اگر اپنے پاس محرومی ہے تو صبر سے کام لینا ہوگا اور دعا سے بات آگے بڑھانا ہوگی ۔زیادہ مانگنا اور وقت سے پہلے مانگنا انسان کی کمزوری ہے ۔ ملتا ہے مگر اپنے وقت پر اور کبھی تو بے حساب بھی مل جاتا ہے کہ جس کانہ تو انت ہوتاہے نہ شمار ہوتا ہے ۔بس یہ مالک کی مہربانیاں ہیں۔ہر ایک کو حاصل ہوتی ہیں۔ مگر ہم غور نہیں کرتے کہ اگر کسی شئے سے محروم ہیں تو اور بہت سی چیزیں ہمیں بہت زیادہ مقدار میں ملی ہوتی ہے۔ مگر ہمارا ان عنایات کی طرف دھیان نہیں جاتا ۔ہمیں تووہ ایک محرومی ہی ستاتی ہے ۔جس کی وجہ سے ہم دل ہی دل میں کہتے رہتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ بد قسمت شخص دنیا میں اور کوئی نہیں ۔اگر اپنے سے اوپر کے لوگوں کو دیکھیں گے تو عمر بھر کی پریشانی اور نفسیاتی بیماریاں ہاتھ لگیں گی۔ لیکن اپنے سے نیچے دیکھیں گے تو آپ کو اپنا آپ اچھا لگے گا۔ کیونکہ جو نیچے کے لوگوں کو پریشانیاں ہوتی ہیں وہ تو ہمیں نہیں ہیں۔ ہمیں شکر اورصبر سے کام نکالنا ہے۔ ہمارے لئے دنیا میں خدا کی یاد کے دو ہی توطریقے ہیں ۔ وہ صبر او رشکر ۔نہ ملے توخدا کی یاد صبر او رکوشش جاری رکھنا ہے ۔پھر اگر مل جائے تو خدا کی یاد شکر کے ساتھ کرنا ہے ۔ہمارا معاشرہ تو ایک اور ہی سمت کورواں دواںہے ۔ جو ناکام ہے وہ کامیاب آدمی کو سیڑھیوں پر اوپر جاتے ہوئے دیکھ کر نیچے سے اس کی ٹانگیں کھینچ کر اسے گرانا چاہتاہے ۔پھر جو اوپر ہے وہ مزید اوپر جانا چاہتا ہے ۔نیچے کے لوگ اسے بھولے ہوتے ہیں۔ محسن احسان کا شعر اسی کیفیت کی عکاسی کر تا ہے” بلندیوں سے میری سمت دیکھنے والے ۔میرے قریب توآ میں بھی ایک دریا ہوں“۔جو اوپر ہیں انھیں زمین کی طرف دیکھنے کی فرصت کہاں۔ وہ تو بس بلند پروازی کے شوق میں اوپر ہی اوپر جانا چاہتے ہیں ۔مگر وہ بھولے ہوتے ہیں کہ ہمارا رشتہ زمین اور اس کی مٹی کے ساتھ ہے۔ اس طرح ہے کہ جیسے سانس او رجسم کا رشتہ ہوتاہے۔جتنااوپر جانا ہے خدا نہ کرے گرے توواپسی بھی اسی تیزی سے ہوگی ۔پھر اس گراوٹ میں بچت کی امکانات صفر سے کچھ کم ہی ہیں۔آج اگر ہم اچھے ہیں تو ان کو ساتھ لے کر چلیں جو نادار و مفلسی کی چکی میں دانوں کی طرح پس رہے ہیں۔کیونکہ کل کو اگر بالفرض وہ جو مفلس تھا مالدار ہوا تو اگر تم غریب ہوئے تو وہ بھی شاید تمھیں بھلادے ۔مگر ہم نے یہ اصول واقعی بھلادیا ہے۔ہمیں جتنا زیادہ ملاہواہے ہماری ہوس اور لالچ اس کے حساب سے دگنا تگنا اور چوگنا بڑھ چکی ہے ۔یا تو زمانے کی ہوا اس رخ پرچل رہی ہے ۔ آج کل یہ لالچ اپنی حد عبور کر چکی ہے ۔ہم نے اوروں کی پروا کرنا چھوڑدی ہے ۔ناصر کاظمی کاشعر یہاں نہ لکھوں تو مدعا پورانہ ہوگا ” یہ حقیت ہے کہ احباب کو ہم ۔ یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں“۔کیونکہ کسی کے ساتھ اچھا کرنے کے لئے اگر کسی جگہ کا انتخاب کیا گیا ہے تو وہ یہ دنیا ہے جہا ںہمارے پا¶ں چمٹے ہوئے ہیں۔