آمدن کم اور اخراجات کی مد میں ہر دن اضافے نے اچھے اچھوں کے زندگیوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ معاشی پریشانیوں کی موجودہ صورتحال اِس لحاظ سے بھی تشویش کا باعث ہے کہ اِس میں ’تنخواہ دار اور آمدن کے لحاظ سے متوسط طبقات‘ متاثرین میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ اِس سے قبل سرکاری و نجی ملازمین اپنی آمدن کے قدرے مستقل ہونے کی وجہ سے مہنگائی کا بوجھ‘ کسی نہ کسی صورت برداشت کر لیا کرتے تھے لیکن اب قرض لے کر اور مانگ تانگ کر بھی کام نہیں چل رہا کیونکہ ہر شخص کی اجتماعی معاشی حالت خراب ہوئی ہے اور اِس مرتبہ مہنگائی نہ تو چھوٹی موٹی (عمومی) ہے اور نہ ہی اِس کو کسی کروٹ قرار آ رہا ہے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کاروباری و تجارتی سرگرمیاں ’کورونا وبا‘ کی وجہ سے متاثر ہیں‘ جن کے معیشت پر منفی اثرات کراچی سے پشاور تک بظاہر ایک جیسے لیکن مختلف ہیں۔ تاحال حکومت یا کسی بھی نجی ادارے نے ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں ’کاروباری و تجارتی سرگرمیوں پر کورونا وبا کے اثرات‘ کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا لیکن عمومی رائے اور تاثر یہی ہے کہ ’لاک ڈاو¿ن‘ اور ’سمارٹ لاک ڈاو¿ن‘ میں نرمی کرنے کے باوجود بھی ملک کے طول و عرض میں کاروباری و تجارتی معمولات بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ معیشت کو دستاویزی بنانے کے خلاف مہمات چلانے والے چھوٹے تاجروں اور کاروباری اداروں کو احساس ہو رہا ہے کہ بڑے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں نے کس طرح اپنی ٹیکس چوری کے لئے اُنہیں استعمال کیا اور اگر معیشت دستاویزی ہو جاتی تو وہ کورونا وبا سے متاثر ہونے کی بنیاد پر حکومت سے کس قدر مراعات (ٹیکسوں میں رعایت اور کاروباری لین دین جاری رکھنے کے لئے آسان شرائط پر قرضہ جات) کا مطالبہ کر سکتے تھے!بہرحال عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے تشویشناک امر یہ ہے کہ آمدن کم اور اخراجات میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے بالخصوص اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ’گھریلو بجٹ متوازن رکھنا ممکن نہیں رہا۔ خاوند‘ بیوی اور دو بچوں پر مشتمل ایک اوسط خاندان گھر کو ماہانہ کرایہ ادا کرنے کے علاوہ اشیائے خوردونوش کی مد میں اوسطاً 8 ہزار روپے خرچ کرنا پڑتے تھے جو حکومت کی تسلیم کردہ مہنگائی کی شرح کے تناسب سے ماہانہ 13 ہزار روپے تک جا پہنچے ہیں۔ آمدن کے لحاظ سے درمیانے اور نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ شکایت کس سے کریں کیونکہ پہلی مرتبہ ایک ایسی حکومت سے واسطہ ہے جو مہنگائی کا انکار نہیں کر رہی اور یہ دعویٰ بھی رکھتی ہے کہ اِسے عام آدمی کی معاشی پریشانیوں کی خبر ہے لیکن خبر سے خبرگیری تک کا فاصلہ طے نہیں ہورہا!خبر یہ بھی ہے کہ حالیہ چند ماہ کے دوران اشیائے خوردونوش اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لے رکھا ہے اور اِس کے تدارک کے احکامات بھی جاری کر رکھے ہیں لیکن سوائے نمک ہر جنس عام آدمی کی قوت خرید کی آخری حد کو چھو رہی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کے اعدادوشمار باقاعدگی سے مرتب اور جاری کئے جاتے ہیں اور اِس مقصد کے لئے ”وفاقی ادارہ¿ شماریات“ کے نام سے خصوصی محکمہ بھی قائم ہے‘ جس کی جانب سے ماہ ستمبر 2020ءکا گزشتہ مہینے اور گزشتہ برس کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”پاکستان میں عمومی سطح پر مہنگائی کی شرح میں 9.04 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ جو اگست (دوہزاراُنیس) میں 8.02 فیصد تھی یعنی ایک سال میں 1.02 فیصد مہنگائی بڑھی ہے جبکہ اِس میں کمی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی ماہ ستمبر (دوہزاربیس) کے آخر میں ”زرعی پالیسی“ میں غذائی اجناس کی رسد میں رکاوٹوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھنے کے بارے میں اشارہ کیا تھا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ”مہنگائی جانچنے کا پیمانہ“ کیا ہے؟ ایک عام آدمی کےلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا پیمانہ تکنیکی طور پر ”کنزیومر پرائس انڈیکس“ کہلاتا ہے‘ جسے حکومتی و غیرحکومتی فیصلہ فیصلہ ساز اپنے بیانات و خطبات میں ”سی پی آئی (CPI)“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ درحقیقت یہی پیمانہ (انڈیکس) ’مہنگائی کی شرح کا بیان ہوتی ہے۔ مذکورہ انڈیکس میں آبادی کی عمومی استعمال میں آنے والی اشیا اور خدمات کا انتخاب کیا جاتا ہے‘ جسے ”سیٹ (set)“ کہا جاتا ہے اور اِس سیٹ (فہرست) کو ”سی پی آئی باسکٹ“ پکارتے ہوئے اِس میں موجود مختلف اشیا‘ اجناس و خدمات کی قیمتوں میں ردوبدل پر مستقل نظر رکھی جاتی ہے۔ ’سی پی آئی باسکٹ‘ کے مطابق ہر پاکستانی اپنی کل آمدنی کا اوسطاً 34.58 فیصد کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کرتا ہے جبکہ کل آمدنی کا چھبیس فیصد سے زیادہ مکان کے کرائے‘ بجلی‘ گیس‘ پانی کے بلوں اور ایندھن‘ آٹھ اعشاریہ چھ فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری‘ تقریباً سات فیصد ہوٹلنگ‘ قریب چھ فیصد نقل و حمل‘ چار فیصد سے زائد گھر کی تزئین و آرائش و مرمت‘ 3.8 فیصد تعلیم اور 2.7فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ ’فوڈ انفلیشن‘ یعنی غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے اور مالی سال 2018-19ءمیں مہنگائی کی شرح مجموعی طور پر 6.8فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو مالی سال 2019-20ءکے اختتام پر 10.7فیصد تک گئی۔ ترسیلی (نقل و حمل کا) نظام (سپلائی چین) اِس حد تک متاثر دکھائی دیتا ہے کہ سبزی جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اِس صورتحال کو انتظامی فیصلوں میں بہتری‘ ذخیرہ اندوزی کے سدباب اور اسمگلنگ روکنے سمیت اِن تینوں محرکات کی حوصلہ شکنی کرنے سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ کیا پاکستان کو ایک ایسی ”نظرثانی شدہ مالیاتی حکمت عملی (مانیٹری پالیسی)“ کی ”اشد ضرورت“ نہیں جس سے عام آدمی کی قوت خرید بڑھے اور کاروباری و تجارتی سرگرمیوں میں اضافے سے بھی مہنگائی کے اُس جن کو قابو کیا جا سکتا ہے جو بقول شخصے ’بوتل سے باہر آ چکا ہے۔