آلو پکوڑے

میںدکان پرکھڑا سبزی لے رہا تھا ۔وہاں ایک اور گاہک بھی آگیا۔ شکل سے مزدورلگ رہاتھا۔ ساتھ چھوٹی بچی بھی تھی۔اُس نے پوچھا ٹماٹر کتنے کے کلو ہیں۔ دکاندار نے جب اس کے سوال کا جواب دیاتووہ قدرے پریشان ہوا۔ جیب میں سے ساٹھ روپے نکالے تو کسی سوچ میں پڑ گیا۔ اتنے میں دکاندار نے مجھے میری سبزی کا شاپر تیار کر کے دیا ۔پھر ہزار کے نوٹ میں سے باقی بچ جانے والی رقم دینے لگا ۔میں نے کہا باقی پیسے مجھے نہ دو ان پیسوں کے ٹماٹر پیاز وغیرہ شاپرمیں ڈال کر اس صاحب کو دے دو۔ میں نے اس مزدور کی طرف دیکھ کر کہا میں ان کو جانتا ہوں۔ مگر یہ مجھے نہیں جانتے ۔یہ ہمارا گھر بن رہاتھا تو اس میں کام کرتے تھے۔اس پر وہ مجھے پہچان گیا اور خوش ہوا کہنے لگا نیک جی کیسے ہیں آپ ۔میں بھی اخلاق سے دہرا ہو کر اس سے ملا۔میں نے کہا میں ٹھیک ہوں سب ٹھیک ہے ۔ملنے ملانے کے دو ایک منٹ کے بعدمیں نے کہا اچھا میںچلتا ہوں۔واپس مڑا تو سوچ میں پڑگیا کہ کیا ٹھیک ہے کہاں ٹھیک ہے ۔سب کچھ بگڑا ہوا ہے ۔شکر ہے جی رہے ہیں۔” اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے ۔ زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے“۔ارے کون سا گھر کہاں کا گھر ۔ہم تو پشاور کے روڑے ہیں ۔آبائی گھر چھوٹ گیاتو کرایہ پر عرصہ بیس سال سے کبھی ایک نگر اور کبھی دوسری نگریاجا پہنچتے ہیں ۔ہم نے اپناکون سا گھر بنایا ہے۔ بس یونہی اپنے پاس سے کہہ دیا تھا کہ اس مزدور کی عزت ِ نفس مجروح ہونے سے اگر بچ نہ سکے تو کچھ نہ کچھ تو بچ جائے ۔کیونکہ میں جہاں سے سبزی لے رہاتھا وہ میرا اپنا علاقہ نہ تھا ۔یونہی راستے میں یہ دکان نظر آئی تو میں نے اپنے لوہے کے گھوڑے کی باگیں کھینچ لی تھیں۔ باواجی کہنا یہ ہے کہ جتنا ہو سکے کسی کو جینے میں اس کی مدد کردیں تو کتنا اچھا ہو ۔ دل بہت تڑپا تھا جب میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا کہ ٹماٹر کے ریٹ جان لینے کے بعد اس کے دھول سے اٹے منہ پر ہوائیاں یوں اڑیں کہ الٹا گرد ہی صاف ہونے لگی ۔ میںنے محسوس کیاوہ غبار میرے منہ پر پڑا اور مجھے دھندلا دھندلا سا نظر آنے لگا تھا۔میںوہاںاس کی اور مدد کو بہانہ تراش ہی لیتا۔ مگر یہاں بھی حال اور حالات کچھ الگ نہ تھے۔ بلکہ عام پبلک کاجینے کاانداز کچھ اسی ڈھب سے ہے ۔ٹماٹر آلو خریدو تو پیاز کے نرخ جان کر سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس مزدور کے ساتھ تو بچی کھڑی تھی مگر ہم جیسے لوگوں کے بال بچے تو گھروں میں چڑیوں کے بچوں کی طرح ہماری راہ دیکھتے ہیں کہ بابا دانہ دنکا لائیںگے اور ہم کھائیںگے۔ ایک بار وہ کہنے لگی چلو آلو پکوڑے ہی لے آنا۔ مجھے خوشگواری نے اندر اندر گھیرا ۔مگر اداسی کا غلبہ اتنا تھا کہ فوراً یہ خفگی اندر کی مسکان پر چھا گئی ۔سوچ رہا تھا کہ اب تو پچاس کے آلو پکوڑے لو تو دکاندار ویسی فراخی کی مظاہرہ نہیں کرتا۔ تلی ہوئی دوسبز مرچیں اوپر ویسے ہی چہنگے کے طور پر ڈال دیتا تھا۔اب تو سبزی والے کے ہاتھ سے شاپر لیتے ہوئے کہو کہ یار دوایک سبز مرچ تو ڈال دو ۔وہ جواب میں پوچھتا ہے بیس کی کافی ہوںگی۔ آلو چھولے لے لو گھتی میں ڈال کر دے گا۔پچاس کے چھولے بھلا کتنے ہوں گے ۔پہلے تو گھر میں داخل ہوتے تو کہتے بس آلو پکوڑے لے آیاہوں کیونکہ جیب خالی تھی۔ کھانے والے صبر شکر کر کے جی نہ چاہتے ہوئے کھا لیتے ۔ گھر میں اگر کچھ نہ ہوتا تو ٹماٹر کی چٹنی او رسبز مرچ لنگری میں کوٹ کر صبح کی بچ جانے والی روٹی کے ساتھ کھالیتے ۔ایسا بھی تھا کہ روٹی پر اچار والی مرچ رکھی اور نوشِ جاں کر کے شکر ادا کیا ۔یہ وہ آئٹم تھے جو گھرمیں مفت تھے۔ماں پوچھتی باہرکیا کھایا ۔ جواب دیتے بھوک لگی تھی اور پاس کچھ نہ تھا بس چھولے روٹی ہی کھا لی یا کبھی کہتے کچالو پیڑا کھالیا ۔مگراب آلو پکوڑوں کی توبات ہی نہ کرو ۔ یہ بھی کھانا مشکل ہے ۔چھولے کلول کون سے سستے ہیں ۔ ان کےلئے بھی جیب کو بھاری ہونا چاہئے۔اب تو مہنگائی کے ہاتھوں کسی چیز کوہاتھ نہیں لگا سکتے۔ ہر دکاندار نے اپنے ریٹ بنا رکھے ہیں ۔جس کے من میں جو آتا ہے کرتا ہے ۔اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں وطنِ عزیز کو بہت زیادہ ووٹ ملے مگر ہمارا اپنا اندر کا حال انتہائی برا ہے ۔کیا اس بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے ۔