اِحتجاج کا موسم

 آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی نمائندہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین وزیراعظم اور صدر مملکت کی رہائشگاہوں اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے علاوہ عدالت عظمیٰ کے سامنے شاہراہ پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے ملک گیر احتجاجی مہم کا اعلان کر رکھا ہے اور اِس سلسلے میں پہلا احتجاجی جلسہ آج گوجرانولہ میں ہوگا اسلام آباد میں لیڈی ہیلتھ ورکز کا احتجاجی مظاہرہ 13 اکتوبر سے جاری ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین بچوں سمیت کھلے آسمان تلے دن رات بیٹھی ہوئی ہیں اور اُن کا عزم ہے کہ جب تک حکومت اُن کے مطالبات مان نہیں لیتی وہ اُس وقت تک اپنا احتجاجی دھرنا ختم نہیں کریں گی۔اسی طرح آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن‘ پاکستان ورکس ڈیپارٹمنٹ اور دیگر محکموں کے ملازمین بھی متحد ہو کر ’سراپا احتجاج‘ ہیں جنہیں قبل ازیں ایسے ہی ایک مظاہرے کے موقع پر ملاقات میں وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اُن کے مطالبات پورے کئے جائیں گے اور اِس کے بعد سرکاری ملازمین کا دھرنا وقتی طور پر ختم کر دیا گیا تھا لیکن وعدے پورے نہیں ہوئے اور اِس مرتبہ سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت بنا مطالبات تسلیم کروائے واپس نہیں جائیں گے! حکومت کے لئے حزب اختلاف کی جماعتوں سے نمٹنا آسان لیکن سرکاری ملازمین سے نمٹنا مشکل ہے کیونکہ اگر کسی ایک تنظیم کے مطالبات تسلیم کر لئے جاتے ہیں تو دیگر تنظیمیں بھی اِسی صورت احتجاج کرنے کے لئے اسلام آباد کا رخ کریں گی اور یہ رسم چل پڑے گی کہ مطالبات تو بذریعہ احتجاج ہی پورے ہوتے ہیں۔لیڈی ہیلتھ ورکرز کا مطالبہ ہے کہ عرصہ دراز سے اِن کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی اِن کے لئے ’سروس سٹریکچر (ملازمتی قواعد)‘ بنائے جا رہے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پانچویں سکیل میں بھرتی کیا جاتا ہے اور یہ اِسی پانچویں گریڈ میں ملازمت کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتی ہیں جبکہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچنے پر بھی ان کی ماہانہ تنخواہ اٹھارہ سے بیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتی! جائز مطالبہ ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف کیا جائے جو اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے لیکر گھر گھر جا کر ایسے علاقوں میں بھی طبی سہولیات فراہم کرتی ہیں جہاں اُنہیں شدت پسندوں کے حملوں اور سماجی ناپسندیدگی جیسے روئیوں سے براہ راست واسطہ پڑتا ہے اور کئی لیڈی ہیلتھ ورکرز اِس کام میں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہیں! حکومت کی جانب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے لئے کم سے کم تعلیمی قابلیت ”آٹھویں جماعت پاس“ رکھی گئی ہے اور اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ تعلیمی قابلیت کم ہے تو پھر اِسے بڑھا یا جائے لیکن لیڈی ہیلتھ ورکرز کےلئے ملازمتی قواعد اور اُن کی تنخواہیں خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے طے ہونی چاہیئں۔ جو لیڈی ہیلتھ ورکرز ’پُرخطر علاقوں‘ میں خدمات سرانجام دیں اُن کے لئے اضافی الاو¿نس ہونا چاہئے جبکہ دیگر سرکاری ملازمین یا طبی عملے کی طرح ہر سال اِن کی تنخواہوں میں بھی اُسی تناسب (فارمولے) سے اضافہ ہونا چاہئے! اسلام آباد کے ڈی چوک اور پارلیمنٹ کے سامنے ہونے والے سرکاری ملازمین (مرد حضرات) اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے احتجاجی دھرنے کا ایک حساس پہلو یہ بھی ہے کہ مرد تو سخت جان ہوتے ہیں لیکن صنف نازک کے لئے بال بچوں سمیت ننگی زمین پر کھلے آسمان تلے چادر اوڑھ کر سونا اور بنا بیت الخلا و دیگر سہولیات موسم کی سختیاں برداشت کرنا آسان نہیں۔