پشاور کی تہذیب کے بچا¶ کی باتیں بہت ہوتی ہیں ۔ مگر اس ثقافت کی واپسی ناممکن ہے جو ہماری سانسوں میں جیتی جاگتی تھی۔ سب مالائیں تتر بتر ہو چکی ہیں۔ کوششیں تو ہزار ہوئیں ۔ مگر یہ شہرِ دلبرو دلبراں شہرِ نگار ونگاراں خدا کے فضل سے قائم توہے ۔مگر اس میں خون کی طرح دوڑنے والی اس کی ہندکو رہن سہن کی رسمیں مائل بہ اختتام ہیں‘جس کے بارے میں پشاور کے شاعر ِ مرحوم سجاد بابر نے کہا تھا ” توبھی مٹتی ہوئی تہذیب کے نوحے لکھتا۔ گر مرے یار ترا شہر پشاور ہوتا“ ۔پشاور تو ہے مگر پشور نہیں ۔پشاور ایک باغ وبہار والے چمن کا نام ہے اور پشور اس کی اندرونی فضا کے نام سے موسوم ہے ۔ مگر پشاور تو موجودہے مگر جو اس کی اندرون شہر کی امین وامانت دار تمدن تھا وہ نہیں رہا ۔ہر طرف چار چوفیر ہے ۔پشاور پھیل رہا ہے ۔ دائیں بائیں بھی اور اوپر نیچے کی طرف پلازوں کی تعمیر کے بعد بھی ۔ایک اور تعمیر ہمہ وقت ہر روز ہو رہی ہے۔ اس کا ثبوت وہ ٹریکٹرٹرالیاں ہیں جو اینٹیں اور بجری ریت لاد کرگھوم رہے ہیں۔ اس شہر کی سڑکوں پر جیسے زنجیر سی ہو اونٹوں کی یا ریل گاڑی کے ڈبوں کی مالا ہو۔روز اس شہر کا ایک نیا رنگ ہو تا ہے ۔اقبال کا شعر یاد آتا ہے جو انھوں نے اس کائنات کے بارے میں لکھا ہے ” یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید۔ کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں“۔ جوتھا اب نہیں جو اب ہے وہ کل نہ ہوگا ۔ آنے والا کل اس موجود کے روز سے زیادہ خوب تر ہوگا۔ اب میرا خیال ہے کہ پرانے پشاور کی یاد دل سے بھلا دی جائے ۔اگر نہ بھولیں تو جو موجودہ ہماری سینئر نسل ہے پرانا پشاور انھیں تک ہے ۔ انھیں کے دل و دماغ میںخوشبو بن کے مہک رہا ہے ۔ وگرنہ یہ لوگ تو چند چہروں کی خوبصورت البم ہیں ۔ یہ اگرماضی کا حصہ بن گئے تو پرانے پشاور کو یاد کرنے والا ایک بھی نہیں رہے گا۔ پرانے پشاور کی تہذیب کو بچانے کی کوشش کرنی والی تنظیموں کو آفرین ہے اور داد کہ وہ کوشاں تو ہیں۔ سبلائم پشاور کی چیئر پرسن منزہ ارشد نے گذشتہ روز ایک خوبصورت پروگرام ترتیب دیا ۔ جو چائنا گلی شامی روڈ میں ہوا جہاں پشاور کو یاد کیا گیا بلکہ پشور کو یاد کیا گیا۔ اس کی تہذیب کے باقی رکھنے کے لئے مختلف تجاویز سامنے آئیں۔ اس کے المیوں کا ذکر ہوا اس کے مستقبل کو سامنے رکھا گیا اس کے ماضی کا جائزہ لیا گیا۔ سو ان کی اپنی محبت ہے کہ وہ اپنا سا پیارو محبت رکھتے ہیں۔ ”بلبل کو پیار پھول سے کوئل کو بن سے پیار۔ پھر کیوں نہ آدمی کو ہو اپنے وطن سے پیار “۔ اپنی جنم بھومی کو کون بھلا سکتا ہے ۔وہ گلیاں جہاں ہماری جوانی اور ہمارے بچپن کا سونا چاندی چاروں اور بکھرا تھا وہ گلیاں بھی تو نہ رہیں۔ پھر یہ سونا چاندی بھی تو اس وقت کی کڑی دھوپ میں پگھل میں اپنا وجود تبدیل کر چکے ہیں۔وہ ہیرے موتی لوگ تہہ خاک جا کر زمیں اوڑھ کر سوگئے ہیں اور جو باقی رہ گئے تھے وہ اپنی روٹی پانی کے لئے شہر ہی چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔جو مجبور ہیں اور اپنی اپنی رہائش کو سینے سے لگائے پشور کے اندر شہر میں زندگی کر رہے ہیں وہ بھی مارکیٹوں کی افزائش او ردھیرے دھیرے کے اس سفر سے تنگ ہو کر گھروں کو منہ مانگے داموں بیچ کر شہر کے باہر رنگ روڈ کے اطراف و جوانب میں اور جی ٹی روڈ پھر یونیورسٹی روڈ اور موٹر وے چارسدہ روڈکے آس پاس کھلی فضا¶ں کے پنچھی بن گئے ہیں۔کیونکہ پلازوں کا اژدہا ایک تو نہیں درجنوں ہیں دسیوں ہیں اور بیسیو ںہیں جو اس شہر کو کمرشل کرنے کی کوشش میں پرانی تہذیب کے گھروں کو نگل رہے ہیں ۔دلیپ کمار کے ویران اور ٹوٹے پھوٹے اور ملبہ کے ڈھیر والے گھر کو خرید کر اس کو عجائب گھر بنانے کی کوشش اچھی ہے ۔ یہ گھر شہر کے دل قصہ خوانی میں دو گلیاں چھوڑ کر آتا ہے۔ جہاں دلیپ کا بچپن گذرا اس گھر سے دلیپ کمار کو پیار ہے جو اس گیارہ دسمبر میں دو کم سو سال کے ہو جائیں گے۔پھر ہمیں دلیپ سے پیار ہے ۔ خدا ان کی عمر دراز کرے ۔ اگر ہم انھیں دیکھیں نہ دیکھیں مگر ان جیتی جاگتی پشوری شخصیت کی دھڑکتی ہوئی مورت کے دل کی دھک دھک ہمیں یہاں دور رہ کر بھی سنائی دے۔پشاو رکے او ربہت فنکار ہیں جو اس شہر کی آبرو ہیں جن کے دم قدم سے اس پشور کی رونقیں ہیں ۔ خود راج کپور اور اس کی فیملی کی یادگار ان کا گھرجو ڈھکی نعل بندی میں اوپر صرافہ بازار سے سرگوشیاں کر رہاہے ۔ حکومت کے یہ اقدامات لائق تحسین ہیں ۔ فنکاروں کی اگر قدر نہ ہوئی تو معاشرے میں فائن آرٹ کا وہ زوال ہوگا کہ سب لوگ عقل کے شہہ سوا ر تو ہوںگے مگر دلوں کی سختی ان کے آنکھوں سے ناحق غصے کی صورت میں باعثِ شرمندگی رہے گی۔