پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ”منفی اَثرات “ قومی صحت پر مرتب ہو رہے ہیں اور یہ نتیجہ خیال خود حکومت کے مرتب کردہ اعدادوشمار سے عیاں ہے جن میں کہا گیا ہے کہ آمدنی کے لحاظ سے متوسط اور کمزور طبقات بالخصوص یومیہ اور ماہانہ تنخواہوں پر گزربسر کرنے والے اپنی کل آمدنی کا 35 فیصد اشیائے خوردونوش پر خرچ کر رہے ہیں‘ جو اُن کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اِس سے قبل جن اشیائے خوردونوش پر پندرہ سے بیس فیصد خرچ ہوتا تھا اگر وہ بڑھ کر پینتیس فیصد ہو چکا ہے تو اِس سے عیاں ہے کہ خوردونوش پر اخراجات میں مزید اضافے کی گنجائش نہیں رہی اور اگر مہنگائی میں رتی بھر بھی اضافہ ہوا تو اِس سے صحت میں گراوٹ زیادہ تیزی سے ظاہر ہو گی جو پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔ اعدادوشمار میں جس ایک جنس کی قیمت میں اضافے کو سب سے زیادہ موضوع بنایا گیا ہے وہ آٹے کی قیمت ہے اور آٹے کی قیمت معمول پر لانے کےلئے حکومت کے سبھی دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ وفاقی کابینہ کے سامنے غلط اعدادوشمار پیش کئے گئے اور اُن غلط اعدادوشمار کی وجہ سے وفاقی کابینہ نے گندم اور آٹے کو برآمد (ایکسپورٹ) کرنے کی اجازت دیدی‘ جو نہیں دینی چاہئے تھی۔ اِس غلط برآمدی فیصلے کی وجہ سے پاکستان میں گندم اور آٹے کی قلت پیدا ہوئی جسے فوری حل کرنا ممکن نہیں تھا اور اگرچہ گندم درآمد ہو رہی ہے لیکن مانگ‘ طلب‘ رسد اور فروخت میں آنے والے عدم توازن کو ختم کرنے میں مزید کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ گندم کی درآمد اور اِس کے پہنچنے میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کا کاشتکار متاثر ہوگا کیونکہ جب بیرون ملک سے آنے والی گندم کے ڈھیر لگ جائیں گے تو اُسی دوران پاکستان کی اپنی نئی فصل تیار ہو جائے گی جسے حکومت کے گوداموں میں رکھنے کی گنجائش نہیں ہوگی اور حکومت پہلے ہی سے گندم درآمد کر چکی ہے۔ اِس وجہ سے ایک مرتبہ پھر گندم برآمد (ایکسپورٹ) کرنے کی اجازت دینا پڑے گی اور جب گندم برآمد ہو جائے گی تو پاکستان کے پاس ذخیرہ ختم ہو جائے گا اور یوں آٹے کا بحران جو کہ دراصل سارے بحرانوں کی جڑ ہے اور جس سے مہنگائی جنم لے رہی ہے کبھی بھی ختم نہیں ہو پائے گا!عام آدمی کے لئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جمہوریت کے تسلسل اور جمہوری فیصلہ سازوں کی اپنی اپنی آئینی مدت مکمل کرنا زیادہ بڑی کامیابی ہے یا ’بھوک سے بھوک تک کے سفر‘ کے حاصل شدہ نتائج زیادہ اہم ہیں! گندم اور آٹے کی طرح حکومت چینی کی حسب ضرورت اور حسب سابق وافر مقدار میں فراہمی بھی ممکن نہیں بنا پا رہی‘ جس کا اُس نے وعدہ کیا تھا‘یہی وجہ ہے کہ فی کلوگرام چینی جو حکومت کے برسراقتدار آنے سے پہلے 55 روپے تھی 100 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی کا فی کلوگرام نرخ 78 روپے مقرر تو ہے لیکن چینی دستیاب نہیں اُور مہینے میں ایک یا دو مرتبہ فی سٹور کم مقدار میں چینی فراہم کی جاتی ہے جو فی صارف 4 کلوگرام سے زیادہ نہیں دی جاتی۔ مہنگائی کی موجودہ صورتحال اور اشکال درحقیقت ’بدانتظامی‘ کی عمدہ مثالیں ہیں جس میں حکومتی اہلکار چھوٹے دکانداروں کو گراں فروشی کے جرم میں جرمانے اور گرفتاریاں تو کرتی ہے لیکن اجناس کی منڈیوں اور آڑتھیوں سے ملنے والی مہنگے داموں اشیاءپر نظر نہیں کرتی۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر عام آدمی بطور صارف اور بصورت چھوٹا تاجر و دکاندار نشانے پر ہے جبکہ ضرورت مہنگائی کا سبب بننے والے بڑے تاجروں اور ذخیرہ اندوزوں پر ہاتھ ڈالنے کا ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے قومی فیصلہ سازوں کو حزب اختلاف کی جانب سے ملک گیر احتجاجی تحریک پر بھی نظر رکھنی چاہئے جس کا بنیادی نکتہ ہی مہنگائی ہے اور اِس احتجاجی تحریک کی تاجر تنظیموں نے بھی حمایت کر دی ہے جو اگرچہ ایک غیرسیاسی طبقہ ہے لیکن مہنگائی کی وجہ سے اُنہوں نے بھی سیاسی تحریک کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔کیا حکومت اپنی کارکردگی میں ایسی مثالیں سنبھال رکھتی ہے‘ جنہیں عام انتخابات کے موقع پر مہنگائی کی چکی میں پستے عام آدمی کے سامنے بطور دلیل و منشور رکھا جائے گا؟