دردِ لکھوں کب تک

ہمارے ہاں کنویں بہت ہیں۔ اپنے لئے تو پانی حاصل کرنے کو بھی ہیں ۔پھر دوسروں کے لئے گرانے اور ڈبونے کو بھی یا تو گڑھے پہلے سے موجود ہیں یا ضرورت کے مطابق کھودے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اگر کسی نے یہ کنواں کھودرکھا ہوتا کہ دوسرا آئے یا تیسرا سہی اس میں اُلٹ جائے ۔ کیونکہ یہ کنواں اس کے راستے کو روکنے کے لئے کان کنی کر کے یا کوہ کنی سہی قبر کند والے گڑھے کی شکل میں بنا دیا جاتا ہے۔پھر صاحب جی نے اتنی محنت کر کے ایک عدد کنواں تخلیق کیا ہوتا ہے کہ اس کے دشمن بھیڑ چال میں ایک ایک کرکے آئیں اور اس میں گریں۔ مگر وہ خود سُوئے اتفاق اس میں گر جاتا ہے ۔کنویں میں ضروری نہیں کہ دشمن کو گرایا جائے اس میں تو بھائی کو بھی گرایا جاسکتا ہے ۔ شعر تو آپ نے سنا ہوگا بلکہ میری یہ باتیں بھی آپ نے بار بار سنی ہوں گی مگر چونکہ کالم لکھنا ہے لہٰذا ہم تو لکھیں گے۔وہ مصرع کہ ” خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو“ یا وہ شعر فیض کا ” ہم پرورشِ لوحِ و قلم کرتے رہیں گے ۔ گزری ہے جو اس دل پہ رقم کرتے رہیں گے“۔ یا اگر طبیعت شاعری کی طرف مائل ہو تو غالب کی شاعری ملاحظہ فرمائیں ”دردِ دل لکھوں کب تک جا¶ں ان کو دکھلا دوں۔انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا“‘ فیض فرماتے ہیں ”متاعِ لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے ۔کہ خونِ دل میں ڈبو دی ہیں انگلیاں میںنے“۔ غالب کا ایک اور شعر ” لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں‘ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے “ ۔اگر ہاتھ قلم کی شکل میں نہ رہیںپھر بھی تو لکھنا ہے یا لکھوانا ہے بولنا ہے خاموش نہیں رہنا ۔کیونکہ ”برائی کے فروغ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اہلِ ہوش خاموش ہوں“۔اب لہو بولے گا تلوار نے کیا بولنا ہے “ وہی جانے پسِ پردہ جو تماشا گر ہے ۔کب کہاں کون سے کردار کو کیا بولنا ہے“۔بولنا یہ تھا کہ مولانا حالی نے جانے کس کیفیت میں کہ جیسے ہم کالم کاری کر رہے ہیں یہ شعر کہہ دیا تھا” آرہی ہے چاہِ یوسف سے صدا۔ دوست یاں کم اور ہیں بھائی بہت“۔حالی کی سرگزشت یا آپ بیتی تو نہ ہوگی یا ہو بھی سکتی ہے۔ مگر ادیب کا اینٹینا معاشرے میں لگا ہوتا ہے ۔اس کی یونیورسٹی پشاور کی کوئی یونیورسٹی نہیںہوتی۔ قلم کار جو بھی ہو اس کی یونیورسٹی معاشرہ ہے ۔جہاں سے اس کو سگنل موصول ہوتے ہیں او روہ انھیں نہ چاہتے ہوئے بھی وصول کرتا ہے۔ وہ ان سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ حساس ہو تاہے ۔ ہمارے ہاںکتنے گڑھے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے کھودے جاتے ہیں ۔ بلکہ ان دنوں تو کچھ زیادہ ہی کھودے جا رہے ہیں ۔ مگر اتفاقاً خود کدال لے کر کھرپہ کے ساتھ خوبصورت کنواں بنانے والا خود چکر آتے ہی اس میں گر کر جہان سے رفو چکر ہو جاتا ہے۔اگر وہ دوسرے کو چکر دینے کی کوشش نہ کرتا تو شاید وہ بھی بچ جاتا ہے۔پھر سیاسی کنویں تو الگ ہوتے ہیں جس میں سب ڈگری ہولڈروں نے جو رستمِ سیاست ہیں اپنی اپنی باری پر گرنا ہوتا ہے ۔کہیں کوئی کنویں میں سے رسی کے سہارے پانی کے بوکے سے چمٹ کر آگیا تو آگیا وگرنہ وہ تو گیا۔ پھر یہاں کا کرپشن کا میدان ایسا گرم ہے کہ اگر اوپر آبھی گیا تو مصر کے بازار تک جانا اس کی قسمت میں نہیں لکھا ہوتا ۔ کیونکہ یہ خوبصورت کردار کا مالک نہیںہوتا کہ اس کو اونچے بازاروں میں ہر کوئی خریدنے کو آمادہ ہو اور منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہو۔احمد فراز نے اچھے وقت میں اچھی بات کہہ دی تھی ” بکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو۔ ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے“۔خیر کنوﺅں کی بات چلی ہے تو کہاں تک پہنچ گئی۔” دل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچے ۔بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے “ وہ شعر بھی اس وقت نوکِ زباں ہے ” بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ لوگ بے وجہ جدائی کا سبب پوچھیںگے“۔کنویں تو گھروں میں بھی ہوتے ہیں اور باہر بھی ۔ جہاں نہیں ہوتے وہاں ٹیوب ویلوں کا پانی گھر گھر پہنچتا ہے ۔پھر ان کنوﺅں میں مینڈک بھی تو ہیں جن کا ذکر کرنا تو ہم بھول ہی گئے ۔ایک کنویں میں سو سو مینڈک۔جن کو اپنے حصے کاآسمان نظر آتاہے تو سمجھتے ہیں کہ یہی جہاں ہے یہی کنواں ہی تو بس دنیا ہے حالانکہ اقبال نے فرمایا” وہی جہاں ہے جس کو تو کرے پیدا ۔ یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے “۔