پا کستان اور اتحا د امت

 منفی‘ سنسنی خیز اور ہیجا ن انگیز خبروں کے شور غل میں ایک مثبت اور فر حت انگیز خبر تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح بھلی معلوم ہو تی ہے سوشل اور الیکڑا نک میڈیا پر الزا مات اور جوا بی الزا مات کی بھرمار سے تنگ آکر اتحا د ملت کانفرنس میں شرکت کےلئے شہر کے بڑے ہال کے دروازے پر پہنچا تو اندر سینکڑوں کا مجمع تھا ایک بڑے دیوار پر تحریک آزادی کے مجا ہدین کی تصویر یں لگی ہوئی تھیں ایک دیوار پر بینر لگا تھا ” میں پا کستان ہو ں “ اندر قدم رکھتے ہی میں نے سوچا میں پا کستان ہو ں سٹیج پر اتحا د امت کا قدآدم بینر لگا ہواتھا چار گھنٹے کے پرو گرام میں 10شخصیات نے تقریریں کیں کسی کی گفتگو میں بھی الزام ‘ دشنا م اور منفی پرو پیگنڈا یا چیلنج اور دھمکی والی کوئی بات سننے میں نہیں آئی یہ پیر ہا رون علی گیلا نی کا فیضان نظر تھا یا ہدیتہُ الہادی والے مکتب کی کر امت تھی ہو سکتا ہے دونوں کے امتزاج سے یہ ما حول بنا ہو ہمارے ساتھ ہا ل سے با ہر آنے والے احباب نے دعا کی اے اللہ پورے ملک میں ایسا ما حول بنادے اور ملک کے تمام مقررین کو‘ تما م واعظوں اورخطیبوں کو ایسی خوب صورت باتیں کہنے کی توفیق عطا فر ما اے رب کریم تیری شان اور تیری قدرت کےلئے نا ممکن کچھ بھی نہیں جب ایک ہال میں گلگت ‘کوہستان‘لاہور‘ پشاور اور چترال سے آئے ہوئے مختلف الخیال لو گ امن ، محبت اور بھائی چارے کی باتیں کر سکتے ہیں تو پا کستان کے کسی بھی شہر میں محبت کی یہ باتیں ہو سکتی ہیں ‘ سید ثا قب اکبر نے دریا کو ایک کوزے میں بند کرنے والی بات کہی ہدیہ تحفے کو کہتے ہیں ہادی اللہ پاک کے اسمائے صفات میں سے ایک نام ہے یہ عربی زباں کی تر کیب ہے اسکے معنی ہیں اللہ پا ک کا تحفہ یا خدا کا دیا ہوا عطیہ یا خدا کا بھیجا ہوا بڑا انعام جو پاکستان ہے ہمیں اپنے سوچ کے زاویے کو بدلنا ہے اپنی فکر کے افق کو وسعت دینی ہے یہ پا کستان ہے کہہ کر ہم اس عطیہ خدا وندی کو اپنے وجود سے الگ کوئی دوسری چیز سمجھتے ہیں جب میں پاکستان ہوں کہیںگے تو اس خدا وندی عطیے کو اپنے وجود کے اندر بلکہ اپنے وجود کا حصہ خیال کرینگے ہمارے جن شیر دل جوا نوں اور آفیسروں نے بھارت اور افغا نستان کی سر حدوں پر دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جا نیں وطن کی پا ک مٹی پر نچھا ور کیں ان میں ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ میں پا کستان ہوں اور یہ دعویٰ قربانی کا تقاضا کر تا ہے کانفرنس میں چترال اپر اور چترال لوئیر سے تحریک آزادی کے 12عظیم مجا ہدین کا انتخا ب کر کے ان کے ورثا کو نا مور اسلاف کے بعدا ز مر گ ایوارڈ اور اعزا زات دئیے گئے ان میںپہلا نام چترال مسلم لیگ کے صدر اعظم مولانا نور شاہدین کا تھا جنہوں نے 1940ءسے 1953ءتک ریا ست چترال میں مسلم لیگ کی قیادت کی ایک اہم اور نما یاںنام عبیر ولی شاہ کا تھا جنہیں عرف عام میں ” ہندوستانی لال “ کہا جا تا تھا انہوں نے 1930ءسے 1947 تک 17سال ممبئی ، دہلی اور انبالہ میں گذارے جلیا نوالہ باغ میں خا کسار وں پر فرنگی فوج کی فائرنگ کے وقت وہ جلسے میں مو جود تھے بڑھا پے میں بھی ان کا جذبہ جواں تھا 82سال کی عمر میں بھی خا کسار کی وردی پہن کر بیلچہ ہاتھ میں لئے چپ راست ، چپ راست کی صدا لگاتے ہوئے سڑک پر مارچ کر کے پرانی یا دوں کو تازہ کرتے تھے جن مر حومین کے نام پر اعزا زات دیئے گئے ان میں قادر نواز خان ، سیف اللہ جان لال‘قاضی صاحب نظام‘ مو لا نا صاحب الزمان‘ چارویلوصاحب نگین ‘ صوبیدار جلا ل الدین ‘ شیر میدان لال‘ سالار رحمت الدین اور اتا لیق سر فراز شاہ بھی شا مل تھے حا لیہ سیلاب اور قدرتی آفات کے مواقع پر عوام کی بے لوث خد مت کےلئے الخدمت فاونڈیشن کے صدر نوید احمد بیگ اور ممتاز عالم دین قاری فیض اللہ چترالی کو خصو صی ایوارڈ سے نوازا گیا اس موقع پر اپنے خطاب میں مہمان خصو صی گلگت بلتستان کے وزیر عشر ،زکوة و جنگلی حیات مو لانا سید سرور شاہ نے کہا کہ اتحا د امت پا کستان کا مشن ہے کیونکہ پا کستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اسلا می دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہے پاکستان کی مسلح افواج پر پوری ملت اسلا میہ فخر کرتی ہے اس لئے ہم اپنے ملک کو امن بھا ئی چارہ اور خوش حا لی کا گہوارہ بنا کر ملت اسلامیہ کےلئے مثال قائم کر سکتے ہیں دیگر مقررین میں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ ‘ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے شاہد رشید ‘ ہدیة الہا دی کے مو لا نا محمد الیاس ، حسین احمد ‘ نصرت الٰہی ، علی اکبر قاضی ، رضیت بااللہ اور پیر ہارون گیلا نی شامل تھے مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ فرنگی استعمار کے خلاف آزادی کی تحریک میں ہمارے اسلاف نے مسلک ، فرقہ ، نسل‘ زبان اورعلا قائی امتیاز کو مٹا کر یک جہتی کا مظا ہرہ کیا تھا آج بھی وطن کے دشمنوں کو شکست دینے کے لئے ہمیں ایک بار پھر اُسی جذبے کا مظا ہرہ کرنا چاہئے اور یہ ماحول جو ایک ہال کے اندر بنا اور جہاں پر مکمل قومی جذبے دیکھنے میں آیا ، اس کو اب پورے ملک تک پھیلانا ضروری ہے کہ اس وقت جو چیلنجز درپیش ہیں ان کا مقابلہ کرنے کیلئے وہی جذبہ اور جوش چاہئے جو تحریک پاکستان میں موجود رہا اور جس نے مشکل مرحلے کو آسان بنا دیا تھا۔ اس وقت بقائے قوم و وطن کا مرحلہ درپیش ہے جس میںہر کسی کا انفرادی کردار اہم ہے ۔