میڈیکل سٹوڈنٹس کی بے یقینی

 اس سال تعلیمی سیشن کواگر ایک جانب ناقابل تلافی نقصان کورونا وباءکی وجہ سے برداشت کرنا پڑ اہے تو دوسری جانب ڈاکٹر بننے کا سہانا خواب سپنوں میں سجائے ہوئے میڈیکل کالجز میں داخلے کے خواہشمند لاکھوں طلباءکو دوسری سزا پی ایم ڈی سی کو اچانک تحلیل کرنے کی شکل میں دی گئی ہے۔یہاں یہ امر پیش نظر رکھناانتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کی متعارف کردہ مرکزی داخلہ پالیسی جس کاچنددن قبل اعلان کیاگیا ہے پر نہ صرف سندھ حکومت کی جانب سے واضح تحفظات سامنے آئے ہیں بلکہ اس نئی داخلہ پالیسی پر خیبرپختونخوا میں بھی والدین اور طلباءوطالبات کی طرف سے شدید ناراضگی اور تحفظات کا اظہار کیاجارہا ہے۔کہاجاتا ہے کہ اس نئی پالیسی کے نتیجے میںخیبر پختونخوا کے طلباءکا نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے سے محروم رہنے کا شدید خدشہ ہے۔اس بات میں کوئی دوآراءنہیں ہیں کہ خیبرپختونخوا کے نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں نئی منظور شدہ پالیسی کے نتیجے میں صوبے کے طلباءوطالبات کی بجائے پنجاب کے طلباءکو داخلہ ملنے کاامکان کئی گنا بڑھ گیا ہے کیونکہ پنجاب جہاں آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے وہاں وسائل کی فراوانی کی وجہ سے بھی وہاں کے طلباءکو ملک گیر ا وپن میرٹ کے تحت خیبرپختونخوا اور سندھ کے نجی میڈیکل کالجز کی زیادہ سے زیادہ نشستوں پر داخلے سے کوئی نہیں روک سکے گا جس کا نتیجہ ان دو چھوٹے صوبوں میں پہلے سے موجود احساس محرومی میں اضافے کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت کی مجموعی کارکردگی پر بھی نئے ڈاکٹروں کی کمی کی شکل میں منفی اثرات کاپڑنا یقینی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں اس وقت کل 167 میڈیکل وڈینٹل کالجز ہیں، جن میں 102 میڈیکل اور 65 ڈینٹل کالج ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر 17 نجی کالجز ہیں جن میں 11 میڈیکل اور چھ ڈینٹل ہیںجن میں سابقہ پی ایم ڈی سی کی منظور شدہ 1425 نشستوں پر اب تک صوبے کے ان طلباءوطالبات کوداخلہ دیاجاتا تھا جو پبلک سیکٹر کالجوں میں داخلے سے محروم رہ جاتے تھے ۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ پچھلے سال تک چاروں صوبوں بشمول اسلام آباد کے میڈیکل کالجز میں داخلوں کےلئے متعلقہ صوبوں کے تحت الگ الگ انٹری ٹیسٹ ہوا کرتے تھے جب کہ اس سال بھی پی ایم ڈی سی کی منظوری سے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے کالجز میں داخلوں کےلئے انٹری ٹیسٹوں کی تاریخوں اور شیڈول کااعلان ہوگیا تھا لیکن اسی دوران پی ایم ڈی سی کے خاتمے اور پی ایم سی کاادارہ وجود میں آنے کے بعد جہاں پہلے سے شیڈول شدہ انٹری ٹیسٹ اور ان کےلئے لاکھوں کی تعداد میں کی جانے والی رجسٹریشن کا مستقبل سوالیہ نشان بن گیا ہے وہاں وہ لاکھوں والدین اور طلباءوطالبات بھی تذبذب اور شدیدذہنی پریشانی سے دوچار ہوگئے ہیں جورجسٹریشن کرکے انٹری ٹیسٹ کاانتظار کررہے تھے۔واضح رہے کہ پی ایم ڈی سی نے پچھلے دوسالوں سے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے میڈیکل کالجز میں داخلوں کے لئے ان صوبوں اور مرکز کی ایک ایک پبلک سیکٹر طبی جامعہ کو ایڈمٹنگ یونیورسٹی ڈکلیئرکیا تھا جن کی نگرانی میں داخلہ ٹیسٹ سمیت داخلوں کے تمام مراحل مکمل کئے جاتے تھے لیکن اب اچانک پی ایم ڈی سی کے خاتمے اور پی ایم سی کے وجود میں آنے کے بعدپی ایم سی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سارے ملک میں ایک ہی دن بیک وقت سنٹرالائزڈ انٹری ٹیسٹ منعقد کرے گاجس کے لئے اگر ایک طرف طلباءکو دوبارہ رجسٹریشن کے لئے کہا جائے گا تودوسری جانب سندھ ، بلوچستان، خیبر پختونخواور پنجاب کے طلباءکو ایک ہی معیار اور نصاب کے یکساں نظام کے تحت جانچا جائے گا جس پر چاروں صوبوں بالخصوص چھوٹے صوبوں کی جانب سے شدید اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں لیکن تادم تحریر اب تک ان اعتراضات کا کسی بھی حکومتی ادارے کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب سامنے آیا ہے اور نہ ہی لاکھوں طلباءاور ان کے والدین کی کسی بھی فورم پرکوئی شنوائی ہورہی ہے۔ پی ایم سی کی نئی پالیسی کابعض دیگر کمزور پہلوﺅں کے ساتھ ساتھ اب تک جو بڑا نقصان دہ پہلو سامنے آیا ہے وہ نجی میڈیکل کالجوں میں داخلے کےلئے ڈومیسائل کی شرط کاخاتمہ ہے جس کا سارا فائدہ پنجاب جب کہ نقصان سندھ اور خیبرپختونخوا کے طلباءکے حق میں آئے گا۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو اپنے صوبے کے طلبہ کے حقوق کے تحفظ کےلئے یہ معاملہ فی الفورپی ایم سی کے ساتھ اٹھاناچاہئے بصورت دیگر خیبرپختونخوا کی زیادہ تر نشستیں دوسرے صوبوں کوملنے کے خدشات کورد نہیں کیاجاسکتا ہے جس کا خمیازہ لامحالہ اس پسماندہ صوبے کوبھگتنا پڑے گا۔