ایک اور ایک گیارہ

صبح سویرے ناشتے کے وقت میں نے اپنی پلیٹ میں فرائی کیا ہوا انڈا دیکھا تو اچانک خیال آیا اور شیٹ پر ساتھ بیٹھی ہوئی منی سے پوچھا کہ بیٹا کیا تم کو یہ پتا ہے کہ ایک انڈے کی کیا قیمت ہے ۔کیونکہ اس وقت جب ہم چائے پی رہے تھے میری نگاہ آواز بند کئے ٹی وی کی سکرین پر تھی۔ جہاں خبریں چل رہی تھیں۔ ہر شہر کے نمائندے سبزی بلکہ ہر چیز کے نرخ بتلا رہے تھے ۔ان چیزوں کے نرخ جوروزمرہ کے استعمال کی ہیں۔الٹا ننھی مجھ سے ہی پوچھنے لگی کیوں انڈا کتنے کا ہے ۔میں نے کہا سوال کے جواب میں سوال کرنا درست نہیں ہوتا۔ چلو میں نے کہا اس کو معلوم نہیں تو میں ہی بتلا دوں۔وہ آج سکول نہیں گئی تھی کیونکہ ایک دن جانا ہے اور ایک دن نہیں جانا۔میں نے کہا انڈا پندرہ روپے کا ہے اس پر اس نے فوراً جواب دیا نئیں جی انڈا سترہ روپے کا ہے۔ لو میں نے کہا مجھ سے زیادہ تو اس کو معلومات حاصل ہیں۔حالانکہ کل میں نے فی انڈا پندرہ روپے کا لایا تھامگر مجھے اندازہ ہوا کہ میری واقفیت ِ عامہ ایک روز پرانی ہے ۔جو معاشرے کے لئے قابلِ قبول نہیں۔ معلوماتِ عامہ کو روزمرہ کے حساب سے ہونا چاہئے۔میں نے پوچھا آٰپ کو کس نے بتلایا۔ وہ کہنے لگی صبح بھائی انڈے لایا تو اطلاع دی کہ آج انڈہ سترہ روپے کا ہے ۔اتنے میں ٹی وی پر بتلائے جانے والے نرخوں کی فہرست سامنے آئی تو واقعی دیکھا کہ انڈا سترہ میں بک رہاہے ۔صاحبان میں انڈے کی بات کو تو کر رہاہوں۔پھر انڈے کو میں نے اگر اس تحریر کا بنیادی نکتہ بنایا ہے تو مطلب صرف انڈے ہی کے ساتھ نہیں یہاں تو ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے ۔پھر اشیائے صرف کے نرخ اوپر ہی اوپر جا رہے ہیںاتنے اوپر کہ مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے ۔” تمھیں معلوم ہے اس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہوگا۔ پرندہ آسما ںچھونے میں جب ناکام ہو جائے“۔ یہ مصنوعی طور پر اٹھائی گئی دیوار اگر ثریا تک بھی پہنچ جائے اور دنیائے سیاسست والے جتنا بھی اکٹھے ہوکر شور مچا لیں ایک اور ایک گیارہ ہو جائیں تو پھر بھی اگلے دن کے بعد پورا ہفتہ مہنگائی کو ختم نہیں کر سکتے کیونکہ اندرونِ خانہ تو مہنگائی مشترکہ پالیسی کا ایک حصہ ہے اگر چیزیں سستی کر دیں تو عالمی ادارے اگلا قرضہ نہیں دیں گے ۔ یا پھر قرضوں کی مرحلہ وار قسط در قسط ہماری حکومت کے اکا¶نٹ میں منتقلی کو وہیں کے وہیں روک دیں گے۔خیر اس میں تو کسی کو کچھ اختیار حاصل نہیں بلکہ ہماری حکومت بھی تو اس میںبے اختیار ہے ۔کچھ تو اس میں مال بیچنے والوں کا قصور ہے کہ ایک کا دو لگا دیتے ہیں ۔فی روپیہ مہنگا ہو جانے والی چیز کو بیس روپے مہنگا کر دیتے ہیں مگر کیا کہہ سکتے ہیں پٹرول مالکان اپنی جو ضد پر اڑے رہے تھے اور آخر کار ہمارے سیاسی ٹائیکون اور پہلوانوں نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے کہ جو بھی ہو جتنے کا ہو پٹرول کا ذخیرہ اندر سے نکال تو لا¶ کہ مہنگا سہی مگر مل تو جائے۔یہاں تو ایک رونا نہیں۔ اب روزانہ کی بات ہے۔ ایسے میں اتنا جگر کس کے پاس کہ ہر روز کے رونے پر کمر باندھ لے۔کبھی کا توکورونا کے ہاتھوں رونا ہے اور کبھی سیاسی بازیگروں کی قلابازیوں کاما تم ہے ۔ایسے میں تو رو روکر آنکھیں بھی دکھنے کو آجائیں اور شام کے چراغ بن کر جلتی جائیں ۔ اب تو مہنگائی نے وہ کھیل کھیلا ہے کہ بندہ بندہ عاجز آ چکا ہے ۔وہ کیا کھائے دن میںکتنے ٹائم کھائے گا۔ اس وطن کے ساتھ اس کے اپنے ہی کھیلواڑ کر رہے ہیں ۔ خواہ جو بھی سیاسی دھڑا ہو کوئی ٹولہ ہو سب کے سب ا س سونے کی چڑیا کو لوٹ رہے ہیں۔ اس کے سونے کو چبا چبا کر نگلنا چاہتے ہیں کہ باہر ڈھونڈو تو نہ ملے دو سال ہوئے پریشانیاں بڑھ گئی ہیں کشتی جو ڈانواڈول ہے اس کے مچھیرے مچھلیاں پکڑنے کو تو کیا روئیں خود اپنی کشتی کو پار اتارنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔۔ایک دوسرے کے ناک میں دم کیا جا رہاہے‘ایک دوسرے کی کھال اُتاری جا رہی ہے ‘ایک دوسرے کے پرکھوں کو برے طریقے سے یاد کیا جا رہا ہے پھر ایک دوسرے پر ٹھنڈی جغتیں کسی جا رہی ہیں۔زندگی اجیرن کر رہے ہیں زندگی اجیرن ہو رہی ہے ‘زندگی کتنی مشکل ہے ‘ یہ تو ویسے بھی مشکل تھی اور ہزاروںسالوں سے تھی مگر اب کے تو ہمارے معاشرے میں اور مشکل ہوئی جاتی ہے ۔کب وہ دن ہوگا جب غریبوں کی بھی سنی جائے گی جب یہ بھی خوشحال ہوں گے جب ملک خوشحالی کی طرف جائے گا تو تب ہی یہ خوشحالی ان کے چہروں پر چمکتی دمکتی نظرآئے گی۔خیبر کے پہاڑی سلسلوں سے لے کر کراچی کے ریتلے ساحلوں کی ہموار سطح تک آج کل ایک ہی رونا ہے کہ کورونا تو نہ رہامگر مہنگائی لگتا ہے کہ کورونا سے بھی زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہے ۔