غیرمحفوظ دنیا

موبائل فونز کارآمد‘ روزمرہ زندگی کا حصہ بطور مشغلہ‘ شوق‘ تفریح‘ تعلیم و تحقیق جیسے مقاصد کے لئے اِستعمال ہو رہے ہیں اور اِن کے بغیر ’جدید عملی زندگی‘ کا تصور کرنا ممکن نہیں رہا لیکن کیا موبائل فونز کا استعمال محفوظ ہے یا اِسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے اُور اِن میں ذخیرہ کی گئیں ذاتی معلومات بشمول پیغامات‘ پاس ورڈز‘ تصاویر‘ آڈیو اور ویڈیو فائلز کی حفاظت سے متعلق خواندگی ہر خاص و عام کے لئے کیوں ضروری ہے؟ اِن دو بنیادی سوالات کے بارے میں جاننے سے پہلے ہر موبائل فون صارف کو چند بنیادی باتیں سمجھنا اور اُنہیں ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔ 1: موبائل فونز اپنی ساخت اور کام کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے یہ سوچ کر نہیں بنائے گئے کہ یہ آپ کے ذخیرہ کردہ کوائف کی حفاظت کریں بلکہ موبائل فون کچھ خاص کام‘ کچھ خاص ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں ۔2: موبائل فونز کو کام کرنے کے لئے توانائی (بیٹری) کے علاوہ جن تین دیگر چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اُن میں نیٹ ورک تک رسائی‘ سافٹ وئر اُور صارف کی طرف سے سافٹ وئرز کے استعمال کرنے سے قبل اُس کو دی گئی اجازت اُور یہی سے اُس عمل کا آغاز ہوتا ہے جسے عمومی اور خصوصی اصطلاح میں ہیکنگ کہا جاتا ہے اُور یہ عمل ممکن بنانے کے لئے موبائل فون سافٹ وئر کے ماہر مختلف سافٹ وئرز کا استعمال کرتے ہیں‘ جن میں سے مقبول ترین ’ٹروجن ہارس‘ ہے۔انسانی تاریخ میں ’کانسی کا عہد کہلانے والا ایک زمانہ گزرا ہے جب لوہا نامی دھات دریافت نہیں ہوئی تھی۔ تقریباً 2 ہزار سال قبل مسیح کے مذکورہ زمانے میں چونکہ ’لوہا‘ دریافت ہی نہیں ہوا تھا اِس لئے بطور دھات ’کانسی‘ ہی کا استعمال ہوتا تھا اُور کانسی جو کہ لوہے کے مقابلے نسبتاً نرم دھات ہے اور مقابلتاً کم درجہ حرارت پر پگھل جاتی لیکن اُسی سے ہتھیار اور اُوزار بنائے جاتے ہیں۔ کانسی قریب ایک ہزار جبکہ لوہا اٹھائیس سو سنٹی گریڈ سے زیادہ درجہ¿ حرارت پر اُبلتا ہے۔ لوہے کی دھار زیادہ عرصے تک برقرار رہتی ہے لیکن کسی ہتھیار یا آلے کی دھار یا شکل اگر وہ کانسی سے بنی ہوئی ہو تو کم پائیدار ہوتی ہے۔ کہانی ہے کہ اُس زمانے میں یونان کی فوج نے کانسی سے ایک بڑا گھوڑا بنایا جس میں کئی فوجیوں کو چھپا کر دشمن کے قلعے کے اندر پہنچا دیا چونکہ وہ بظاہر چمکدار اُور خوبصورت گھوڑا تھا اِس لئے اُسے قلعے کے وسط میں نمائش کے لئے رکھ دیا گیا اُور رات کو جب سب سو گئے تو فوجی جو کہ اُس گھوڑے سے اندر چھپے (دبکے) بیٹھے تھے باہر آئے‘ اُنہوں نے قلعے کے دروازے اندر سے کھول دیئے اور باہر پہلے سے منتظر فوج نے حملہ کر کے قلعہ فتح کر لیا۔ اِس کہانی کی نسبت سے کسی موبائل فون کے اَندر سافٹ وئر کے ذریعے مداخلت کرنے (یعنی ہیکنگ) کے عمل میں اِستعمال ہونے والے سافٹ ویئر کو ’ٹروجن ہارس‘ کہا جاتا ہے اور اِن کا بنانا اِس قدر آسان ہے کہ کوئی بھی گیارہویں جماعت کا طالب علم جو کمپیوٹرز پروگرامنگ کے بارے ابتدائی اسباق سے آشنا ہوتا ہے وہ باآسانی ٹروجنز بنا سکتا ہے۔ اِس مقصد کے لئے عموماً سائبر گیٹ نامی خودکار سافٹ وئر کی مدد لی جاتی ہے لیکن زیادہ ماہر میٹازپولیٹ فریم ورکس کا استعمال کرتے ہیں اُور اکثر اساتذہ طالب علموں کو کمپیوٹر یا موبائل فون میں استعمال ہونے والے سافٹ وئرز کی تربیت کا آغاز ہی ’ٹروجنز‘ بنانے سے کرتے ہیں تاکہ پروگرامنگ کیا ہوتی ہے اور یہ خودکار انداز میں‘ پس پردہ رہتے ہوئے‘ کس طرح کام کر سکتی ہے کے بارے میں طلبہ کے تصورات واضح ہو سکیں۔ ٹروجنز سے زیادہ پیچیدہ قسم کے ہیکنگ اسلوب بھی ہوتے ہیں‘ جنہیں گہری سمجھ بوجھ والے استعمال کرتے ہیں کیونکہ ٹروجنز کی خرابی یہ ہے کہ اِن کو بنانے یا اِس کے ذریعے کسی کے فون یا کمپیوٹر تک غیرقانونی رسائی حاصل کرنے والے کی پہچان ہو سکتی ہے۔ اَب یہ بات ممکن ہے کہ بہت سارے کمپیوٹر اور موبائل صارفین کے لئے خوف کا باعث ہو کہ جس طرح ہوا کے ذریعے نزلہ زکام (فلو) کے جراثیم پھیل سکتے ہیں بالکل اِسی طرح کسی ’وائی فائی ‘ نیٹ ورک کے ذریعے بھی ایسے پروگرام پھیل سکتے ہیں ۔ بنا خواندگی کمپیوٹرز اُور موبائل فونز کا استعمال فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے‘ جس سے متعلق پاکستان کے قومی فیصلہ سازوں کو سوچنا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے درس و تدریس کے لئے آن لائن (انٹرنیٹ پر منحصر) وسائل کا استفادہ بڑھ رہا ہے-