نگورنو کاراباخ کے متنازعہ علاقے پرقبضے کے لئے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان گزشتہ تین ہفتوں سے جاری جنگ کی بندش کے لئے روس ،امریکہ اور فرانس کی کوششیں ناکامی سے دوچار نظر آتی ہیں۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تازہ جھڑپیں 27ستمبر کواس وقت شروع ہوئی تھیں جب آرمینیاکی جانب سے اس کے مارگرائے جانے والے ایک ہیلی کاپٹر کونشانہ بنانے کاالزام آذربائیجان پرلگا کر سرحدی چوکیوں پرتعینات اس کے فوجیوں کو نشانہ بنایاگیا تھا۔واضح رہے کہ نگورنو کاراباخ تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے آذربائیجان کا حصہ رہا ہے لیکن یہاں آباد آرمینیائی نسل کے لوگوں اور وفاقی حکومت کے درمیان سوویت یونین کے انہدام اور اس کے نتیجے میں آذربائیجان اور آرمینیا کو ملنے والی آزادی کے وقت سے چپقلش چلی آرہی ہے۔ نگورنو کاراباخ جنوبی کوہ قاف کے 1700 مربع میل پر مشتمل پہاڑی علاقہ ہے جہاں تقریباً ڈیڑھ لاکھ نفوس آباد ہیں جن میں آرمینیائی مسیحیوں کا تناسب 90 فیصد ہے جبکہ آبادی کا 10 فیصد حصہ تاتار نسل کے ترک مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں آباد آرمینیائی، نگورنو کاراباخ کو ارتکش ریپبلک کہتے ہیں جب کہ تاتاریوں کا اصرار ہے کہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا حصہ ہے۔ آرمینیائیوں کی تجویز ہے کہ نگورنو کاراباخ کو آرتکش اور آزاد تاتار ریپبلک میں تقسیم کردیا جائے ۔ تاریخ دانوں کے مطابق پندرہویں صدی میں یہ علاقہ ترک قبائلی سرداروں کے زیرانتظام تھا۔ پہلی جنگ ِ عظیم میں عثمانیوں کی شکست کے بعد نگورنو کاراباخ سلطنتِ برطانیہ کا حصہ بن گیا تھا۔ سوویت یونین کے قیام کے بعد خودمختار صوبہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان سوویت سوشلسٹ ریپبلک کا حصہ بنادیا گیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ سابق سوویت مرد آہن جوزف اسٹالن نگورنو کاراباخ کو آرمینیا کے حوالے کرنا چاہتاتھا لیکن اسے ڈر تھا کہ کہیں ترکی اس پر قبضہ نہ جمالے، اس لئے اس نے نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ بنادیاتھا۔ سوویت یونین کے وقت تک تو معاملہ ٹھیک چلتارہالیکن سوویت یونین کی تحلیل پر جب آذربائیجان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو آرمینیائی نسل کے لوگوں نے نگورنو کاراباخ کے آرمینیا سے الحاق کا مطالبہ کردیاتھا۔ 1988ءمیں نگورنوکاراباخ اسمبلی نے آزادی کی قرارداد بھی منظور کرلی جسے آذربائیجان نے مسترد کردیا۔ نومبر 1989ءمیں روسیوں نے نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ بنادیا۔ 1991ءمیں ریپبلک آف آذربائیجان کے قیام پر نگورنو کاراباخ کی صوبائی حیثیت ختم کرکے اسے وفاق کے زیرانتظام کردیا گیا۔ اعلان کے ایک ماہ بعد آرمینیائی آبادی نے آزادی کے سوال پر استصواب رائے منعقد کیا جس میں علیحدگی پسندوں کے مطابق غالب اکثریت نے آزادی کے حق میں رائے دی۔ تاتاروں نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا اور آذری حکومت نے ریفرنڈم کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔اس کے بعد سے نگورنوکاراباخ اور آرمینیائی باشندوں کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے اور اکثر یہ کشیدگی خونریز جھڑپوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ آبادیوں پر حملوں میں جانی و مالی نقصان کے علاوہ ایک دوسرے کو ان کے مکانوں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں اب تک دونوں جانب سے ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔روس اور ترکی کی کوششوں سے مئی 1994ءمیں وفاقی حکومت اور علیحدگی پسندوں کے درمیان مذاکرات کے بعد جنگ بندی ہوگئی تھی اور اس کے بعد سے نگورنوکاراباخ کا کنٹرول عملاً آرمینیائی علیحدگی پسندوں کے پاس ہے تاہم تاتار علاقوں پر اب بھی آذری پرچم لہرا رہے ہیں۔ جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود جاری جھڑپوں میں دونوں طرف سے اب تک ہزاروں افرادلقمہ اجل بن چکے ہیں۔آرمینیا اور آذربائیجان کی حالیہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ترک آرمینیا روایتی چپقلش میں بھی اضافہ نظر آرہا ہے۔ انقرہ کاکہنا ہے کہ آرمینیا دہشت گردوں کو تربیت دے کر نگورنو کاراباخ کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس اہم قومی ایشو پر ترکی میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ برسراقتدار انصاف و ترقی پارٹی کے ساتھ حزبِ اختلاف کی ری پبلکن پارٹی، قوم پرست مادروطن پارٹی اور جماعت خیر نے اپنے مشترکہ بیان میں آرمینیائی فوج کے بالائی نگورنو کاراباخ میں آذری شہریوں پر حملے کی سخت مذمت کی ہے۔اسی طرح جنگ پر تشویش اور امن و استحکام کے لئے اقوام عالم کی فکرمندی قابلِ تحسین ہے۔