اصل خطرہ

غیرمحفوظ دنیا (اُنیس اکتوبر) کے عنوان سے اُن خطرات میں سے صرف ”ایک خطرے“ کا سرسری تذکرہ کیا گیا‘ جس سے کمپیوٹر اور موبائل فونز اِستعمال کرنے والے صارفین سب سے زیادہ اور باآسانی شکار ہو رہے ہیں اور اُن کے کوائف (ذخیرہ شدہ معلومات) چوری ہو جاتی ہیں یا ایسے افراد اُن کے فونز اور کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں جنہیں ایسا کرنے کا قانونی طور پر اختیار نہیں ہوتا۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اِس پوری تمہید سے جو ایک نکتہ سمجھنے لائق ہے‘ وہ یہ ہے کہ ’موبائل فونز‘ کو سمارٹ (ذہین) تو کہا جاتا ہے لیکن یہ نہ تو ذہین ہوتے ہیں اور نہ ہی اِن کی اپنی عقل ہوتی ہے۔ اِس خامی (کمی) کو دور کرنے کے لئے ’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس)‘ سے کام لیا جا رہا ہے لیکن تاحال مارکیٹ میں کوئی ایک بھی ایسا موبائل فون یا کمپیوٹر دستیاب نہیں جو مذکورہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے اَصولوں پر کام کرتا ہو۔ شہری و عسکری ہوا بازی اور بالخصوص دفاع کے شعبے میں ’مصنوعی ذہانت‘ سے کام لیا جا رہا ہے اور یہ بالکل اُسی طرح عام صارفین کے لئے دستیاب ہوگی جس طرح اِنٹرنیٹ عام ہوا تھا کہ اِس کی تخلیق بنیادی طور پر دفاعی مقاصد کے لئے کی گئی اور بعدازاں اِس سے دیگر محکموں کے اَمور میں رابطہ کاری ہونے لگی اور پھر اِس نے پوری دنیا کو ایک ایسے گاو¿ں (گلوبل ویلیج) میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے‘ جہاں چادر و چاردیواری کا تحفظ اور اخلاقیات و اقدار کے درمیان فاصلے ہر دن کم ہو رہے ہیں۔معلوم حقیقت ہے کہ موبائل فونز پر انحصار بڑھ رہا ہے اور اب نجی و کاروباری زندگی میں اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ موبائل فون یا انٹرنیٹ کے بغیر مواصلاتی رابطے ممکن ہو پائیں گے اور یہی وہ مرحلہ ہے کہ جہاں سے موبائل فون صارفین کی پریشانی شروع ہوتی ہے جن کی خواندگی میں اِس حد تک اضافہ ہونا چاہئے کہ جہاں اُنہیں تحفظ کا احساس ہو اور موبائل فونز میں ذخیرہ شدہ کوائف (معلومات) محفوظ رہیں۔ کمپیوٹرز اور موبائل فونز کے آپریٹنگ سسٹم (سافٹ وئرز) کی باریکیوں اور کام کاج کے اسلوب سے آگہی نہ رکھنے والے اگر صرف ایک بنیادی اصول کو مدنظر رکھیں اور کوئی بھی ایسا سافٹ وئر ڈاﺅن لوڈ نہ کریں‘ جس کی اُنہیں ضرورت نہ ہو اور اگر حسب ضرورت کوئی سافٹ وئر استعمال (انسٹال) کیا بھی جائے تو اُس کےلئے فون میں ذخیرہ معلومات تک رسائی دینے کو مشروط رکھا جائے۔ کسی سافٹ وئر کو دی گئی اجازت کو ذہن میں رکھتے ہوئے سافٹ وئر استعمال کے بعد وہ تمام اجازت نامے منسوخ کر دینے چاہیئں۔ اِس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرہ کھیلوں (گیمز) سے ہوتا ہے جو عموماً بچے بڑوں کے علم میں لائے بغیر انسٹال کرتے ہیں اور فون میں ذخیرہ ہر قسم کی معلومات تک رسائی (پرمیشن) دے دیتے ہیں۔ پاکستان میں موبائل فونز اپنی ساخت اور سافٹ وئر کے لحاظ سے بنیادی طور پر2 اقسام کے ہیں۔ ایک کو ’اینڈرائیڈز‘ اور دوسرے کو ’آئی او ایس‘ کہا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ یعنی قریب 80 فیصد صارفین ’اینڈرائیڈز فونز‘ استعمال کرتے ہیں جو سیکورٹی کے لحاظ سے کمزور ترین ہیں جبکہ پندرہ فیصد ’آئی او ایس (ایپل)‘ موبائل فونز سیکورٹی کے لحاظ سے قابل بھروسہ ہیں لیکن اُن کی قیمت اور بعدازفروخت مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ’آئی او ایس فونز‘ پسند نہیں کئے جاتے۔ اِس پسند و ناپسند سے متعلق صارفین کی ترجیح کا تعلق ’اشتہارات‘ سے بھی ہے کہ ’ایپل فونز‘ کے اشتہارات نشر نہیں ہوتے اور اِن کی خصوصیات کے بارے صارفین کی صرف وہی تعداد ہی علم رکھتی ہے جنہیں اِس شعبے میں دلچسپی ہو۔موبائل فونز کے محفوظ استعمال کے حوالے سے صارفین کے حقوق کا تحفظ ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ کی ذمہ داری ہے‘ جو ملک میں اِنٹرنیٹ کی فراہمی اور موبائل فونز کی رجسٹریشن جیسے امور کا نگران اِدارہ ہے اور ’پی ٹی اے‘ ہی ایسی ویب سائٹس پر پابندی بھی عائد کرتا ہے‘ جن سے صارفین کو کسی بھی صورت خطرہ ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ ویب سائٹس پر موجود مواد کی اخلاقیات کے پیمانے پر جانچ پڑتال تو کی جاتی ہے لیکن موبائل فونز صارفین کو ہیکنگ سے لاحق خطرات بارے خاطرخواہ دردمندی اور گہرائی سے غور نہیں کیا جاتا ہے‘ جو اصل خطرہ ہے اور اِس اصل خطرے کی جانب توجہات مبذول نہیں۔