اصل میں ہماری بنیادی تربیت ہی نہیں ہے سب کچھ اسی بگاڑ کی وجہ سے ہے ۔کیا وجہ ہے کہ شہرمیں صفائیاں ہو رہی ہیں مگر گند کی حالت وہی ہے جو پہلے تھی۔ اس شرح میں کمی نہیںآ رہی۔ معاملہ یہ ہے کہ گند ڈالنے والوں کو روکنا ہوگا ۔ ان کی تربیت کرناہوگی۔ سب سے پہلے یہ تربیت کہ یہ شہر پرائی جگہ نہیں خود اپنا گھر ہے ۔اس کو صاف ستھرا رکھنا ہمارا فرض نہیں مجبوری ہے۔ جیسے گھر کی صفائی فرض نہیں مجبوری ہے کہ خودہم اس میں رہتے ہیں سو ہمیں صاف تو رکھنا ہے ۔تاکہ خود ہمارا دل اس میں لگے اور ہم گھرمیں رہتے ہوئے اچھے لگیں۔یوں شہر کے شہری ہونے کے ناتے ہمیں اس لئے صفائی کی مجبوری ہے کہ اس میں رہائش کر کے ہم خو د اچھا محسوس کریں۔ہم میں سے اکثر اپنے گھر ہی کو صاف ستھرا نہیں رکھتے تو اپنے شہر پر کیا دل دکھائیں گے۔جو گند گریل ہو وہ گھر کی کھڑکی سے باہر پھینک دیں گے۔ اپنے گھروں میں صفائی کا خیال کریں گے مگر کوڑے کا شاپر باہر گلی میں پھینکتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ گلی ہمار ے گھر ہی کا حصہ ہے ۔سمجھتے ہیں کہ جو گند باہر پھینک دیا وہی جگہ اس کی اصلی جگہ ہے ۔ماناکہ گھر کے گند نے باہر ہی جا ناہے مگر اس کا مطلب یہ کہا ںنکلتا ہے کہ گھر سے باہر گلی میں پھینک دیں ۔ کیوں نہ کسی مناسب جگہ جہاں کوڑے کے ڈھیر پر اس گند کو الٹ دیں مگر ہماری بنیادی تربیت جو نہیں ۔ تربیت تو گھر سے ملتی ہے او ر تعلیم سکول کالج سے ۔مگر ہم لوگوں میں سے اکثر تو خوداپنے ہی گھر میں بچوں کو منع نہیں کرتے کہ بیٹااو بچے جو ٹافی کھائی اس کا رنگین کاغذ کمرے میں مت پھینک دو ۔شاباس اٹھا¶ او رکوڑے کی ٹوکری میں پھینکو۔اگر اسی طرح بچوں کو سمجھاتے جائیں اور بچے سیکھ جائیں تو ہم دنیا کے کسی کونے میں بھی چلے جائیں ہم نے گند کو یونہی گاڑی کا شیشہ کھول کے نہیں پھینکنا بلکہ اس کو گند کی جگہ پر ٹھکانے لگانا ہے۔خاکروب آ کر گلی کاجھاڑو بھی لگا جاتا ہے ۔ مگر پھر دوسرے دن گلی کوچے گند گریل سے اٹے پڑے ہو تے ہیں وجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے جو گلیوں میں کھیل رہے ہوتے ہیں ان کی بنیادی تربیت نہیں ۔ان کو تو چھوڑیں ہمارے اکثر بڑوں تک کو اس میں لاج نہیں آتی کہ وہ گند اٹھا کر گلی کوچوں میں سرِ عام پھینک دیتے ہیں۔سرکار کو چاہئے کہ جگہ جگہ کوڑے دان نصب کریں ۔ اگرچہ کہ اس سلسلے میں وہ لوگ کوشش میں ہیں مگر کچھ زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ صفائی ہماری فطرتِ ثانیہ بن جائے۔پھرہم اس قابل ہو جائیں کہ چورستے پر گند پھینکتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کریں۔بلکہ اس حد تکہ الٹا صفائی کا موقع آئے تو ہم خود ہی خاکروب بن کر جھاڑو لگانا شروع کر دیں۔ اکثر مقامات پر گاڑی کے چھوٹے موٹے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے گاڑی کی ونڈ سکرین کے شیشے چکنا چور ہو کر سڑک پر یہاں وہاں گرے ہوئے ہوتے ہیں۔ جن کو اگر کسی اٹھایا تو اٹھایا وگرنہ یہ شیشوں کی کرچیاں یونہی پڑی رہتی ہیں۔ اور کئی کئی ہفتہ یونہی سڑک پرگاڑیوں کے ٹائر پنکچر کرنے کاسبب بنتی ہیں یہی وہ بنیادی نکتہ ہے کہ جس کی وجہ سے شہر کا شہر کوڑے کاڈھیر بن گیا ہے ۔ہم خود اگر صفائی میں حصہ لیں تو مجال ہے دنیا کے ٹاپ ٹین گندے شہروں میں ہمارے شہرکو شمار کیا جائے۔بچوں کے علاوہ ہمارے بڑوں کی عادت ہے کہ اگر نالے کو صاف کرتے ہیںتو پورے طریقے سے صفائی نہیں کرتے۔نالے کا گند بڑی تگ و دو اور محنت سے نکال کر وہیں کنارے پر ٹکا دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دو چاردنوں کے بعد وہی گند خود بخود نالے میںدوبارہ سے گرنے لگتا ہے ۔ پھر یہ نئے سرے سے محنت کرتے ہیں اور وہی گند دوبارہ نالے سے نکال کر باہر کنارے پررکھ دیتے ہیں۔ اگر صفائی ہی کرنا ہے تو صفائی کا عمل پورے کاپورا ادا کرنا چاہئے۔اس گند کو ٹھکانے بھی لگاناچاہئے۔تاکہ ایک بار صاف شدہ نالہ اگر گندا ہو تو میں چند دن نہ لگیں بلکہ کافی مدت کے بعداسے صاف کرنا پڑے۔اصل کام یہ ہے کہ بچوں کو گھرمیں تربیت دینا ہوگی ان کو سمجھانا ہوگا ۔تاکہ پہلے تو وہ اپنے گھر ہی میں گند نہ ڈالیں اور پھر وہ گھرسے باہر کی فضا کو کو بھی گندا کرنے سے گریز کریں۔