امریکی انتہاپسندوں کا خطرہ

امریکہ میں بڑھتی ہوئی سفید فام نسل پرستی ، انتشار پسندی ، انتہاپسندی اورمسلح گروہوں کی موجودگی نے امریکی اداروں اور ماہرین کو پریشانی میں مبتلا کرنا شروع کردیا ہے۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے ستمبر میں خبردار کیا تھا کہ امریکہ کو اب سب سے بڑا خطرہ حکومت مخالف اور سفید فام بالادستی کے علمبردار انتہاپسند گروہوں سے ہے۔ آٹھ اکتوبر کو امریکہ کی ہوم لینڈ سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ (ڈی ایچ ایس) نے بھی اپنی"ہوم لینڈ تھریٹ اسیسمنٹ 2020 " رپورٹ میں انفرادی انتہا پسندوں اور چھوٹے گروہوں کو 2021 تک امریکہ کا سب سے بڑا دہشت گرد خطرہ اور سفید فام نسل پرستوں اور داخلی تشدد پسندوں کو مستقل اور مہلک خطرہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایچ ایس کے انسداد دہشت گردی کے سابق ماہر ڈیرل جانسن کے بقول داخلی انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خطرہ بہت بڑھ چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت زیادہ تاخیر ہو جائے حکومت کو اس سے جلد از جلد نمٹ لینا چاہئے۔ پچھلے سال بھی ڈی ایچ ایس کے قائم مقام سیکرٹری کیون میکلنن نے بھی بروکنگز انسٹیٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نسل پرستانہ تشدد پسند، خصوصاً سفید فام برتری والی، انتہاپسندی امریکی قوم، اس کی جدوجہد اور اتحاد کےلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ بھاری اسلحہ رکھنے والے یہ انتہاپسند گروہ جو سفید فام برتری، ریاست مخالف اور فسادی نظریات کا کھلم کھلا پرچار کرتے ہیں، امریکہ بھر میں موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مختلف امریکی ریاستوں میں تین سو سے زیادہ انتہاپسند گروہ ہیں جن کے ک±ل بیس ہزار مسلح اور زیادہ تر فوجی تربیت یافتہ ارکان ہیں۔ ان میں "بوگالو بوئس" جیسا گروہ بھی ہے جو علانیہ انقلاب اور بغاوت کی بات کرتا ہے اور جس کے مخصوص لباس پہنے مسلح کارکن "بگ اگلو" نامی نئی امریکی خانہ جنگی کے منتظر ہیں۔ اس برس فروری تا اپریل ایسے فیس بک گروپوں اور پیجز میں بھی ساٹھ فیصد اضافہ دیکھاگیا جو کھلم کھلا بغاوت پر اکساتے ہیں۔ فیس بک کی طرف سے پابندی سے پہلے ان کی تعداد 125 اور ان کے پیروکاروں کی تعداد تہتر ہزار تک پہنچ گئی تھی۔امریکہ کے مختلف علاقوں چارلسٹن ،ایس سی ،پاوے ،کیلیفورنیا اور ایل پاسو میں حالیہ برسوں میں سفید فام بالادستی کے علمبردار انتہا پسندوں یا دوسرے سخت گیر گروہوں نے درجنوں بے گناہوں کو قتل کیا، کیلیفورنیا میں سیکورٹی آفیسر ڈیوڈ پیٹرک انڈر ووڈ کو ہلاک کیا اور موسم گرما میں پرامن مخالف مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کیے۔ پچھلے سال جون میں منیاپولس میں محکمہ پولیس کی عمارت کو آگ لگائی گئی۔ اسی ماہ واشنگٹن میں وائٹ ہاو¿س کے قریب آگ لگائی گئی اور کینوشا اور پورٹ لینڈ میں ہلاکتیں ہوئیں۔ پچھلے دنوں انتہاپسندوں نے امریکی ریاست مشی گن کی گورنر گریچن وائٹمر کے اغوا کی کوشش بھی کی۔ وہ انہیں گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلانا چاہتے تھے کیوں کہ انہیں ان کی کورونا وائرس سے نمٹنے کی پالیسی پسند نہیں تھی۔ اینٹلی جنس ذرائع کے مطابق روس بھی غلط اطلاعات پھیلا کر معاشرتی و سیاسی تفرقے اور بائیں اور دائیں گروہوں میں انتہاپسند نظریات کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہے۔ ان سارے واقعات اور رجحانات سے واضح ہوتا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے اب امریکہ کو دہشت گردی کا زیادہ خطرہ بیرونی عناصر سے نہیں بلکہ داخلی انتہاپسند گروہوں اور افراد سے ہے اور مزید اس خطرے کو ہلکا لینا انکےلئے خطرناک ہوگا۔امریکی سی آئی اے، ایف بی آئی اور دوسرے ملکی اور مقامی ادارے اس خطرے کا سدباب کرنے کےلئے کوششیں کررہے ہیں مگر امریکی ماہرین کہتے ہیں صدر ٹرمپ اپنے بیانات اور عمل سے انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ابھی یہ مکمل واضح نہیں کہ اگر صدارتی انتخاب کا نتیجہ ملتوی کیا گیا یا صدر ٹرمپ کو شکست ہوئی تو ان کے حامیوں کا ردعمل کیا ہوگا یا اگر انتہاپسند مسلح ہوکر باہر آگئے اور انہوں نے مسلح کاروائیاں شروع کردیں تو ریاستی ادارے کیا کریں گے؟ تاہم ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اندرونی انتہاپسند تین نومبر کو ہونےوالے صدارتی انتخابات کے قریب معاشرتی اور سیاسی تناو¿ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں یا کورونا وائرس پر حکومتی پالیسیوں کو بزعم خود آزادی کی خلاف ورزی سمجھتے ہوئے ردعمل میں حملے کر سکتے ہیں۔ ماہرین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ دائیں بازو کے انتہا پسند، ”قینان“ جیسی سازشی نظریات والی تحریکوں اور ”اوتھ کیپرز “ جیسی بھاری مسلح تنظیموں سے وابستہ صدر ٹرمپ کے حامی ان کی شکست کے بعد بغاوت اور مسلح کاروائیاں شروع کرسکتے ہیں۔ صدارتی انتخابات کے آخری ہفتوں میں انتخابی سلامتی اور پولنگ کے مقامات و سٹاف اور رائے دہندگان کی حفاظت پر بھی خدشات سامنے آرہے ہیں۔ تاہم چند باتیں واضح ہیں : ایک یہ کہ اس دفعہ منظم اور شفاف صدارتی انتخاب اور پرامن انتقال اقتدار، جن پر امریکی فخر کرتے ہیں، خطرے میں ہیں۔دوسری یہ کہ اس اندرونی دہشت گردی کی روک تھام اور تخفیف کے لیے پورے معاشرے کو سنجیدہ اور مربوط کوششیں کرنا ہوں گی۔ اور تیسری بات یہ کہ امریکی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے باہر آکر اور اس خطرے سے نمٹنے میں حکومتی اداروں سے مکمل تعاون کرکے جمہوریت اور آزادیوں کے خلاف سازشوں کو ناکام بناسکتے ہیں۔