سرد اور گرم زمانے کے

سردیو ں کا دوران شروع ہونے والا ہے ۔ابھی تک تو پنکھوں کی ہوائیں جاری ہیں ۔کبھی پنکھا بند کبھی آہستہ اور کبھی دوبارہ لگانا پڑتا ہے ۔سونے سے پہلے گرمی لگتی ہے اور سو جائیں تو جسم ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔پھر چھت کے پنکھے کی ضرورت نہیں رہتی ۔مگر کون اٹھے اور پنکھے کو آف کر دے ۔ سو کبھی گرمی کبھی سردی کا موسم ہے۔ اس سردو گرم میںطبیعت کے خراب ہونے اور جسم میں درد کی شکایات عام ہیں۔ جن میں زیادہ تر بیماریوں کا تو کوئی قصور نہیں مگر ہماری اپنی کوتاہی اور غفلت سے مزاج میں سستی اور وجود میں دکھن کا احساس ہوتا ہے ۔بخار بھی چڑھ جاتا ہے ۔ پھر نزلہ اور گلا خراب ہونا ایک سے دوسرے کو بھی لگتا ہے ۔عام طور سے ان دنوں کی بخار کی سی علامات کا معمولی سا علاج ہوتا ہے ۔جو ایک درد کی ایک گولی سے بھی ہو جاتا ہے ۔مگر نادان ا س پر بھی سینکڑوں روپے لگا کر مہنگی ادویات خرید فرماتے ہیں۔ جو ہفتہ میں دو دوبار مہنگی ہو رہی ہیں۔سردیوں کی آمد آمد ہے ۔ پھر جب ان دنوں چلنے والے پنکھے بند ہو جائیں گے تو سردیاں بھرپور طریقے سے ماحول کو اپنی لپیٹ میں ڈھانپ لیں گی ۔ پھر اس وقت سردی کا شکایات شروع ہو جائیں گی۔ کیونکہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ۔ خدا خدا کر کے گرمی کے موسم سے نجات ملی ہے ۔ مگر ایسے ہیں جو سردی سے بھی تنگ ہوتے ہیں۔خواہ کسی کاروباری مصلحت کی وجہ سے یا خود ان کی مزاج سردی سے لگا نہیں کھاتے۔ ہاں مگر اتنا ہے کہ سردی میں نزلہ بخار اور زکام وغیرہ کی شکایات عام ہو جاتی ۔پھر یہ دن تو نمونیہ کے دن بھی ہیں۔ ویسے تو نمونیہ کسی بھی موسم میں ہو سکتا ہے۔ مگر سردیوں میں عام طور سے اس کا چرچا زیادہ رہتا ہے۔ پھر بچوں کو زیادہ تر اس کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ جتنا کم عمر بچہ ہو اتنا ہی اس کااس بیماری میں پھنس جانے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔اپنے بچوں کاخیال رکھیں۔ نمونیہ کا خاندانی تعلق کورونا سے بھی ہے ۔اس لئے ان سردیوں میں اس وائرس کے بڑھنے کے خطرے کی پہلے ہی آگاہی دی جارہی ہے ۔ کیونکہ اگر احتیاط نہ کی گئی تو کورنا کو سردی میں پلٹ کر عوام الناس پر حملہ کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔کیونکہ ٹھنڈ میں ہونے والی بیماریوں اور کورونا کی علامت میں انیس بیس کا فرق ہے ۔ہم تو پہلے ہی کورونا سے عاجز آ چکے ہیں ۔ جس نے شہری زندگی کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔لوگ تو لاک ڈا¶ن میں مالی طور ایسے ڈا¶ن ہوئے کہ اگر کورونا کے بستر سے اٹھ کر گھر آ بھی گئے مگر ان کے لواحقین ان کے ساتھ ہی ایسے ڈوبے کہ اب وہ اس مندی اور ابتری کے نالے میں سے ابھر کر شفاف پانی سے نہا کر صاف ہوں گے تو بہت دیر ہوجائے گی۔ اب تو موسم کی ناپائیداری کے کارن کبھی کھڑکیاں کھولناپڑتی ہیں اور کبھی تازہ ہوا کو روکنے کی خاطر بند کر دینا پڑتی ہیں۔اس ہوا کی وہ قدر جو گرما میں تھی اب سردی میں نہیں رہی۔ انسان بھی عجیب شئے ہے گرمی میں تازہ اور ٹھنڈی ہوا کے آنے کے ہر راستے کو کھلا رکھنا چاہتا ہے ۔پھر سردی میں کمروں کے دروازوں کھڑکیوں کے سوراخ تک بند کرنا پڑتے ہیں کہ تازہ ہوا اندر آنے نہ پائے ۔ کمرے میں وہ صندلی بچھا کر باہر چمن میں آگ جلا کر گردا گرد بیٹھ کر کشمیری چائے کی سرکیاں لینا اور الا¶ پر چھوٹے گوشت کی سیخیں چڑھانا درست نہیں ہوگا۔ کیونکہ کورونا کے کارن اس قسم کی سرگرمیاں اور گرمیاں ناپسندیدہ قرا ر دی گئی ہیں۔ مگر کیا ہے کہ ہمارے بھائی بند اس کی خلاف ورزی کریں گے۔ کیونکہ وہ خلاف ورزیاں کر رہے ہیں ۔بڑے بڑے افسر ہیں جو اس کورونا کو سمجھتے ہیں مگر اپنے دفتر میں اور یہاں وہاں ماسک کے بغیر گھومتے ہیں۔ان کو ذرا پروا نہیں کہ یہ مہلک وا©ئرس کسی اور سے خود ان کو نہ لگ جائے اور اگر ان میں ہے تو کسی اور کو چمٹ نہ جائے۔ اگرچہ کہ ہمارے ہاں کورونا کے وار اتنے کاری نہ تھے مگر آگے کا کیا پتا کہ سردی میں کیا حال احوال ہو ۔ سو حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔اکثر تو اس عالمی وبا کو بیماری تصور ہی نہیں کرتے ۔