قومی نقصان

پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں میں اضافے کا ایک سبب مبینہ طور پر وہ ’غیرقانونی درآمدات‘ ہیں جو ایران سے براستہ بلوچستان ملک کے مختلف حصوں میں پہنچ رہی ہیں۔ غیر سرکاری اندازہ ہے کہ ایران سے یومیہ ’ایک کروڑ لیٹر‘ پٹرول غیرقانونی ذرائع سے پاکستان لایا جاتا ہے جبکہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق دس سے بارہ لاکھ لیٹر یومیہ سمگل ہو رہا ہے جس کی سالانہ مقدار 3.65 ارب لیٹر بنتی ہے۔ یہ مقدار غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران سے یومیہ 63 ہزار بیرل تیل سمگل ہوتا ہے جبکہ پاکستان کی اپنی تیل صاف کرنے کی کل صلاحیت یومیہ 89 ہزار بیرل ہے جبکہ یومیہ کھپت (طلب) 5 لاکھ 56 ہزار بیرل ہے اور اگر ایران سے غیرقانونی طور پر درآمد ہونے والا تیل روک لیا جائے تو پاکستان میں تیل کی قلت شدت سے سر اُٹھائے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق ایران سے تیل قانونی ذرائع سے درآمد کیوں نہیں کرتا اور معلوم ہونے کے باوجود بھی غیرقانونی ذرائع سے تیل درآمد کرنے کی غیرتحریری اجازت کیوں دی گئی ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت اِس بات کو تسلیم کرتی ہے اور زمینی حقائق کا انکار نہیں کرتی کہ ایران سے تیل غیرقانونی طریقوں سے پاکستان لایا جاتا ہے۔ ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن میں موٹرسائیکلوں کے ذریعے دشوار گزار راستوں پر سفر کرنے والے موٹرسائیکل سوار فی چکر چالیس لیٹر پیٹرول لاتے ہیں جس پر اُنہیں پانچ سو روپے تک مزدوری ملتی ہے۔ یہی چھوٹی مال بردار گاڑیوں کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے۔ اگرچہ تیل کی سمگلنگ سے متعلق حکومت کے اعدادوشمار موجود ہیں لیکن ایران سے تیل کی باقاعدہ اور باضابطہ خرید عالمی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے نہیں کی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ قدرے چھوٹے پیمانے پر تطہیر شدہ تیل چوری چھپے راستوں سے لایا اور فروخت ہو رہا ہے اور اِس پورے عمل سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ ایران سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ کئی خلیجی علاقوں میں تیل کی غیرقانونی فروخت ہوتی ہے۔ ایران میں تیل کی پیداوار ملکی ضروریات سے زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ عالمی منڈی کے مقابلے 90فیصد تک سستے داموں ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران سے تیل کی غیرقانونی درآمد ہو رہی ہے اور چونکہ یہ کاروبار سالانہ اربوں ڈالر مالیت کا ہے‘ اِس لئے پابندی بھی عائد نہیں ہو رہی اور درپردہ حکومت ایک بڑا معاشی برداشت کرتے ہوئے تیل کی قلت پیدا ہونے نہیں دے رہی۔ پاکستان کا فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن سرحد کے دونوں اطراف ’ایرانی تیل‘ کا کاروبار کرنے والوں کے وارے نیارے ہیں۔حال ہی میں قومی اسمبلی کی ایک قائمہ کمیٹی اجلاس کے سامنے جو حقائق بصورت اعدادوشمار پیش کئے گئے اُن سے معلوم ہوا کہ ایران سے یومیہ 12لاکھ لیٹر پیٹرول غیرقانونی طور پر درآمد ہو رہا ہے اور ایران سے غیرقانونی طور پر فروخت ہونے والے تیل کا یہ بارہ فیصد حصہ ہے جبکہ زیادہ بڑا حصہ آئل ٹینکروں کے ذریعے براستہ سمندر (بڑے پیمانے پر) سمگل ہوتا ہے‘ جسے سرحدی نگرانی کرنے والے مبینہ طور پر رشوت لیکر چھوڑ دیتے ہیں۔ اِس غیرقانونی دھندے سے پاکستان کے نقصان کا تخمینہ 18 روپے فی لیٹر لگایا گیا ہے اور جب بات کم سے کم بارہ لاکھ لیٹر یومیہ پیٹرول سمگلنگ کی ہو اور جب اٹھارہ روپے کو بارہ لاکھ سے ضرب دیا جائے تو یہ نقصان قریب 8 ہزار کروڑ روپے سالانہ تک پہنچ جاتا ہے! قومی معیشت کو پہنچنے والے اِس بڑے نقصان کو ختم کیا جا سکتا ہے جس میں قومی آمدنی میں اِضافے کے لاتعداد اِمکانات بھی پوشیدہ ہیں۔