پاکستان پر دہشت گردی کی مالی سرپرستی کرنے کا الزام سال 2000ءسے عائد ہے اور تب سے اِس تاثر کو زائل کی کوششیں جاری ہیں۔ ایک وقت تھا کہ دنیا میں کہیں بھی دہشت گرد کاروائی ہوتی‘ اُس کے تانے بانے پاکستان براستہ افغانستان یا افغانستان براستہ پاکستان سے جا ملتے تھے! یہی وجہ رہی ہے کہ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نامی عالمی تنظیم نے پاکستان کو مشکوک ممالک کی فہرست (گرے لسٹ) میں سال 2013ءسے شامل کر رکھا ہے جبکہ سال 2016ءمیں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ جب ”مالیاتی نظم وضبط سے متعلق تسلی بخش کارکردگی“ کی بنا پر پاکستان کو مذکورہ ’گرے لسٹ‘ سے نکل دیا گیا تھا لیکن پاکستان کو پھر گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا اور اب واضح نہیں کہ تمام تر اقدامات بشمول قانون سازی کے باوجود بھی پاکستان کے لئے مذکورہ فہرست سے نکلنا ممکن نہیں کیونکہ یہ خاصہ پیچیدہ عمل ہے اور عالمی برادری کی تسلی و تشفی میں اِس میں مزید کئی ماہ یا سال لگ سکتے ہیں۔ یہ کہنا کہ آئندہ (متوقع) اجلاس میں پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا یا اگلے اجلاس میں نکل جائے گا‘ صحیح نہیں ہو گا۔ یہ ایک گرداب ہے جس سے نکلنے کے لئے اہداف متعین ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے کے بعد مزید اہداف دے دیئے جاتے ہیں اور یوں ’گرے لسٹ‘ سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس فہرست سے نکلنا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ملک قرضہ دے رہا ہے یا پاکستان میں کاروبار کر رہا ہے تو وہ سود کی شرح زیادہ لگائے گا جس سے پاکستان پر معاشی بوجھ بڑھے۔ پاکستان کا بنیادی معاشی مسئلہ یہ ہے اِسے گرے لسٹ سے نکلنا ہے۔ رواں برس فروری اور اس سے قبل اکتوبر دوہزار اُنیس میں ’ایف اے ٹی ایف‘ کا پیرس میں ہونے والا اجلاس خاصا اہم تھا لیکن مذکورہ اجلاسوں میں پاکستان گرے لسٹ سے نہیں نکل سکا۔ اس وقت پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے ’ایف اے ٹی ایف‘ کے اُنتالیس ارکان میں سے کم از کم بارہ رکن ممالک کی حمایت چاہئے ہو گی۔ بھارت اور اس کے اتحادیوں کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان مزید مالی تنزلی کا شکار ہونے کے بعد ’بلیک لسٹ‘ میں شامل ہو جائے کیونکہ مبینہ طور پر دہشت گردی کی روک تھام اور اس کی مالی اعانت کو روکنے کے اقدامات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا ہے لیکن دوسری جانب پاکستان کے اتحادی مانتے ہیں کہ محدود وسائل ہونے کے باوجود پاکستان دہشت گردی روکنے کی تمام تر کوششیں کر رہا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ ’ایف اے ٹی ایف‘ کو ’دشمن ممالک‘ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں جبکہ حزب اختلاف بھی اس معاملے کو ہوا دے رہی ہے اور حکومت منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے بل پارلیمنٹ میں لے کر گئی اور پندرہ قوانین کی ترمیم کی گئی تاہم اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت ’جابرانہ قوانین‘ لانا چاہ رہی ہے جس سے انسانی حقوق کی پامالی ہونے کا خطرہ ہے۔ اکیس سے تیئس اکتوبر ایف اے ٹی ایف اجلاس کی پاکستان کے نکتہ نظر سے خاص اہمیت ہے جس میں اب تک ہوئی پیشرفت کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سامنے آئے گا کہ پاکستان کو مزید گرے لسٹ میں رکھا جائے گا یا نہیں؟ پاکستان ستائیس سفارشات میں سے چودہ پر عمل کیا ہے اور باقی ماندہ تیرہ سفارشات کو پورا کرنے کے لئے رواں برس فروری میں ’ایف اے ٹی ایف‘ کی طرف سے پاکستان کو چار ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ درحقیقت مالیاتی نظم و ضبط سے متعلق آئینی اصلاحات اور قوانین پر عمل درآمد سراسر پاکستان کے فائدے میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اب راستہ کیا ہے کیونکہ مالیاتی نظم و ضبط کے بارے میں حکمراں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور دوسری ضرورت یہ ہے کہ گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے پاکستان کو ’تکنیکی معاملات‘ میں کمزوریاں دور کرنے کے لئے ماہرین سے مدد لینی چاہئے۔ دنیا کے اٹھارہ ممالک ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ میں جبکہ 2 ممالک (ایران اور شمالی کوریا) بلیک لسٹ ہیں۔ گرے لسٹ میں موجود ممالک پر عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔