اس کو روزانہ اس کی مرضی کے خلاف اپنے شہر کو گندا کرنے کےلئے اپنی گاڑیوں کی شکل و شباہت خراب کرنے کو استعمال کیا جاتا ہے۔یہ بے جان تو ہے مگر ان بے جان اشیا ءکے اندر ایک اور جان ہوتی ہے جو محسوس ہوتی ہے مگر ہر ایک کو نہیں ۔یہ تو حساس دلوں کے محسوسات کا کھیل ہے ۔یہ ہمارے شہر کے خلاف نہیں ہے ۔کیونکہ اس کا اپنا ایک وجود ہے اور یہ سچ مچ ہے ۔ یہ ہست کا پھیلا¶ ہے ۔اس کی نیت بری نہیں مگر اس کے آس پاس کے کھیلنے کھالنے والے بڑوںاور چھوٹی کی شرارت ہے کہ اس کو شہر میں مصنوعی گندگی پیدا کرنے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔ہوا کی مرضی کہ اس کے رحم وکرم پر یہ دھول اب کہاں کہا ںجاتی ہے ۔جوں دن چڑھتا ہے اور سورج ایک بار پھر سے اپنی ڈیوٹی سنبھالنے کو نمودار ہوتا ہے۔یہ سنتری اپنی پوسٹ پر کھڑا ہوجائے تو ہمارے شہری اپنی سڑکوں پر چھپی ہوئی مٹی گرد وغبار کو ستانے جگانے اور دوڑانے کو پھر سے تیار ہوجاتے ہیں۔یہ دھول بھی کیا کہے گی ۔کن سے دوچا رہونا پڑا ۔ جو دو سے چار اور چار سے چار سو ہزار کردیتے ہیں ۔اپنی حد کو پار کر دیتے ہیں۔جی بھر کے درختو ںکو گندا کردیتے ہیں۔ سڑک کنارے لگے ہوئے پودے اور بوٹے ان کی چہکارسے مہک تو نہیں اٹھتے الٹا یہ خوداپنے آپ میں چڑچڑا پن پیدا کرلیتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جو راستے کے درمیان میں لگی گرین بیلٹ کو دھول سے اتنا بھر دیتے ہیں کہ جو دور سے اچھی لگتی ہے مگر جا کرقریب اس کے بیٹھو تو ناک میں دم ہونے لگتا ہے۔رات کی بیٹھی ہوئی دھول صبح سویرے ابھی تک اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر غفلت کی نیند سو رہی ہوتی ہے ۔سارا دن ہوا یہ اڑتی پھرتی ہے۔ کبھی ایک گلی کوچہ کی خاک چھانتی ہے کبھی دوسرے گلی کوچے کی ہوا خوری کرتی ہے ۔ شہر کا شہر در بہ در مارا پھرتا ہے ۔کوئی کس حال میں کہاں جا رہا ہے اور کوئی کس حا ل میں کس خیال میں ہے ۔کسی کو کسی کی کوئی فکر نہیں ۔سب اپنے جھمیلے میں چاہے نہ چاہے گرفتار ہیں اور سڑکوں راستوں کے شہہ سوار ہیں۔ کوئی گھر سے نکلنے کوتیار ہیں اور کچھ گھر کے اندر ہیں اور کچھ باہر ہیں ۔تمام دن اسی کشا کش میں گذر جا تا ہے ۔پھر مٹیاں اڑتی ہیں اور شام سمے جب پرندے اپنے گھونسلوںکو غول کے غول لوٹنے لگتے ہیں تو یہ مٹی یہ گرد بھی آرام کرنے کے کو تھکی ہاری جیسی کوئی بڑھیا جس کا کوئی نہ ہو اور گھرکے کام کاج سے فارغ ہوکر سونے کی تیاری میں ہو اور بستر پر دراز ہوتے ہوئے بھی اس کی ہڈیوں میں سے چٹج پٹخ کی آوازیں ابھرنا شروع ہوں۔ پرندے دانہ دنکا چگ کر تمام روز تھک ہار جاتے ہیں اور اپنے آشیانوں اور نشیمن کو لوٹ جاتے ہیں۔اسی طرح شام کے ا س منظر کی دھول میں ڈوبتا ہوا سورج بھی اپنی لالی لے کر جیسے آئینے پر گرد جمی ہو اپنا چہرہ سوئے آسمان دیکھتا ہے تو شیشہ مٹیوں سے دھندلاجاتا ہے ۔مجھے اس وقت اقبال کا یہ خوبصورت شعر یاد آتا ہے ۔ کس قدر دلکش انداز ہے ” سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو۔ طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے“۔یہ سرخیاں یہ لالیاں جو آسمان کے چہرے پر کھلی ہوتی ہیں سرِ شام مٹیوں کی تہوں کے ساتھ آمیزش کر کے اس سین کی دلکشی کو گہنا دیتی ہیں۔رات پھر یہ دھول شامِ شہرِ یاراں کے بیچ آرام فرما ہوتی ہے ۔مگر صبح تڑکے ہی اس دھول کو جھنجھوڑ کر اٹھایا جاتا ہے ۔بلکہ زبردستی اٹھانے پر مجبور کیاجاتا ہے ۔یہ اٹھنا نہیں چاہتی کہ اب پھر سے دائرہ کا گول سفر شروع ہوگا اور اسے پورے شہر کی سڑکوں اورگلی کوچوں کے چکر کاٹناپڑیں گے۔مگر کچھ سنگ دل اس کو نیند سے بیدار کر دیتے ہیں ۔یہ ہڑبڑا کر اٹھ جاتی ہے ۔اب سڑک پر گاڑی جتنی تیز جاتی ہے یہ دھول اتنی ہی جلدی کے ساتھ اس ہڑبونگ میں ان پہیوں والی گاڑیوں کے مخالف سمت میں پیچھے بھاگنا شروع کر دیتی ہے۔ کوئی ایک روز پشاور کی دھول مٹیوں کے ساتھ گذار کر دیکھے ۔ اس کے دکھ کس نے دیکھے ہیں ۔یہ تو بس دکھی کرنے والے ہیںسکھ دینا تو ان کا کام نہیں ہے۔ وہ پل دو پل ہی اس کے گذار لے تو پتا چلے کہ ہر چیز عنوان ہے اور کسی صاحبِ کمال کی منتظر ہے۔ ۔یہ تو ا س دھول کو بذاتِ خو داپنے چہروں پرملتے ہیں۔پھر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے شہر کی سیر کر لی ۔ارے اس دھول کے زخم بھی کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے ۔اس کو بھی کسی نے پوچھا ہے ۔یہ بھی تو اگر ذی نفس نہیں مگر چیز تو ہے جیتی جاگتی شئے ۔مگر یہ اپنی مرضی جتلا نہیں سکتی۔ لندن میں تو دھول سارا دن سوئی رہتی ہے ۔ اس کی نیند کا وہاں بہت خیا ل رکھا جاتا ہے۔ اس کو اٹھنے نہیں دیا جاتا ۔ ازل کی ماری ہوئی یہ دھول یہ خیالی بڑھیا اپنی کمزور ی اور ناتوانی میں دن کو بھی وہاں نیند کے مزے لیتی ہے۔یہ تو ہم ہیں اور یہاں ہیں اور ستاتے ہیں اور رجھ کر ستاتے ہیں ۔ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہیں تو پھر اس دھول کی فریاد کون سنے گا۔جسے ہمارے ہاں ہمہ وقت زحمت میں مبتلارکھاجاتا ہے ۔