اب تو ہم اپنی محبت کےلئے انگریزوں کے شیشوں سے بنے تاج محل استعمال کرتے ہیں ۔ہمارے پاس اپنا کیا ہے ۔ہم ان کے احسان متواتر اٹھا رہے ہیں ۔خود اقبال اس وقت خود موجودہوتے تو زمانے کی ہوا کا رخ دیکھ کر اس سمت میں چل نکلتے اور نئی نئی آسانیوںکو استعمال میں لانے پر مجبور ہوتے۔اپنی مٹی جس کی بات اقبال نے کی تھی اس سے تو جو ہمارے بنتا ہے وہ کیچڑ ہے جس کو ہم دوسرے پر اچھالتے ہیں ۔سوچتا ہوں یہ دنیا کس طرف جا رہی ہے ۔روز نئی آسانیاں تخلیق ہو رہی ہیں۔ایک سے ایک بڑھ کر سہولت ہے ۔سہولیات کے انبار لگے ہیں۔اگر سہولت کو قبول نہیں کرنا اور اپنی پرانی روش پر قائم رہنا ہے تو خود ہمارے حق میں درست نہیں ہوگا۔ اگر ہم نے اپنی وضع نہ بدلی اور اپنے آپ میں زمانے کے لحاظ تبدیلی پیدا نہ کی تو ہم ترقی کی اس راہ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔مگر بندہ اب کس کس سہولت سے فائدہ اٹھائے ۔ ہر میدان میںجو سہولیات دستیاب ہیں وہ مفت میں بھی تو نہیں ۔ ہر چیز پر خرچہ اٹھتا ہے پھر اٹھانا پڑتاہے ۔ ویسے ہم جتنا آگے جائیں ہم نے اس دوڑ میں سب سے پیچھے رہنا ہے ۔کیونکہ ہم دوسروں کی بنائی ہوئی چیزوں کو رقم سے کر خرید فرماتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں تخلیقی جوہر وں کا کال پڑ چکاہے ۔سہولتیں اتنی زیادہ ہو گئی ہیں کہ ان کی وجہ سے زندگی دشوار ہوگئی ہے ۔میں تو کہتا ہوں بندہ بس کمرے میں قید ہو کر رہ جائے گا۔ اس کے پاس ہر قسم کی سہولیا ت ہوں گی ۔اس لئے اس کاکمرے سے باہر جانا بیکار ہوگا۔ جب تمام ضرورتیں ایک ہی کمرے میں رہ حاصل ہو ں تو بھلاباہر جا کر اپنے آپ کو خوار کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔بیٹھے بیٹھے او رلیٹے سب کچھ مل جاتا ہے تو اس کےلئے بستر سے اٹھ کر دو قدم چل کر اپنے آپ کو ہلکان کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔بلکہ اگر صبح سویرے واک کےلئے نکلنا ہو تو بندہ اپنے کمرے ہی میں بند رہے گا اور اپناجسم اپنے نوکر کے ہاتھ باہر جاگنگ ٹریک پر بھیج دے گا۔ پھر جب صاحب کا جسم آفس بوائے لے کر واپس آئے گا او راس کو نہلا دھلا کر سر جی کو پیش کر ے گا تو سر اسے اپنی روح پر اوڑھ لیں گے۔ بلکہ اگر کھانے کے لئے ہاتھ دھونے کاموقع ہوگا تو خان جی کے پاس چلمچی اور لوٹا لا کر اس کے ہاتھ دھلانے کی رسم ترک کر دی جائے گی۔ صاحب اپنے ہاتھ کی کلائی کے ٹچ بٹن کھول کر اپنے پی اے کو دےں گے ۔پھر ان کے ہاتھوں کو اس کا نائب قاصد باہر باتھ روم میں جاکر اجلا اجلا دھوکر واپس لے آئے گا اور سیٹھ جی وہ ہاتھ واپس باندھ کر کھانے کو جت جائیں گے۔ کمپیوٹر کے ہاتھوںٹیکنالوجی کی ایک یلغار ہے جس سے بندہ چھپر والی جگہ میں چھپ نہ سکے گا۔ اس کو لازمی طور پر یہ آسانیاں قبول کرنا ہیں وگرنہ اس کی زندگی دشوار ہو جائے گی۔علامہ اقبال کے فرزند جو اس وقت بچے تھے ۔جسٹس جاوید اقبال جو ابھی کچھ سال پہلے انتقال کر گئے تھے۔ انھوں نے اپنے والد کو جب وہ یورپ کے سفر پر تھے خط میں کہا کہ میرے لئے وہاں سے گراموفون لے کر آئیں۔ ٹیپ ریکارڈ سے پہلے بعض گھروں میں گراموفون ہو تا تھا۔پراٹھے جتنی سی ڈی اور اس میں فقط ایک گانا۔اس پر علامہ کو شاق گذرا اور شاک میں انھوںنے وہاں سے ایک نظم لکھ کر بھیج دی ۔اس نظم کا نام ہے ”جاوید کے نام “۔جس میں شعر ہے کہ ” اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں ۔ سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر“۔مراد یہ تھی کہ فارن میڈ چیزوں کی ہوس درست نہیں اپنے ملک کی مٹی سے جام اور کٹورے بنا اور باہر ملک کے پانی پینے کے گلاس کی تمنا مت کر ۔پھر اس کے بعد ٹیپ ریکارڈآیا ۔ اس کی ایک چھوٹی سی کیسٹ میں سولہ گانے آتے تھے ۔جس میں آواز کی ریکارڈنگ بھی ہوتی تھی۔مگر اب تو ٹیپ ریکارڈ بھی ماضی کی یاد بن کر رہ گیاہے ۔پھر کمپیوٹر کی سی ڈی میں بے شمار گانے آنے لگے جو کسی سڑک کنارے گرمی کے دنوں میں لسی بیچنے والے کی جوار کی روٹی کے برابر گول ہوتی تھی ۔مگر اب وہ دو ر بھی اب ختم ہو چکاہے۔ پہلے کمپیوٹر پر فلاپی آئی ۔مگر وہ خراب ہوجاتی ۔ مگر اب توسب کچھ قصہ¿ ماضی ہے ۔دنیا بدل گئی ہے۔جانے کون کون سی آفاتِ زمانہ قسم کی دریافتیں ہیں ایجادیں ہیں اور انسان ہیںجو ان سے فائدہ لے کر اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ سہل و آساں بنا رہے ہیں۔اب تو بس ایک میموری کارڈ ہے جو دو چار سو میں مل جائے گا ۔پھر ان کو پرکھنے کےلئے خواہ کمپیوٹر کی یو ایس بی ہو مقدار کے پیمانے جی بی سے ناپے جاتے ہیں ۔سولہ جی بی کے میموری کارڈ میں سینکڑوں گانے اور فلمیں بھری جا سکتی ہیں۔دیکھا جائے تو زندگی یکسر بدل گئی ہے اور جو سہولیات اور آسانیاں میسر ہیں ان کا کسی وقت تصور بھی ممکن نہ تھا تاہم باوجود اس سب کے اگر کمی ہے تو وہ ان تمام سہولیات اور آسانیوں کے باوجود سکون اور چین کی کمی ہے جس کی بڑی وجہ شاید یہی ہے کہ دیگر رابطوں کے ذرائع میں تیزی آئی ہے تاہم دل سے دل جڑنے کا عمل سست پڑ گیا ہے اور قریب رہ کر بھی لوگ ایک دوسرے سے بے گانہ ہیں۔