انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ”سزا کا دورانیہ“ الزام ثابت ہونے کے بعد شروع ہونا چاہئے اور اِس حوالے سے انصاف کے نظام میں موجود ایک خامی کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے ملزمان کو طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کا نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ ”نیب مقدمات میں ملزمان کو طویل عرصہ حراست میں رکھنا ناانصافی ہو گی۔“ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ ”پرتشدد جرائم میں ملوث افراد اور وائٹ کالر کرائمز میں ملوث ملزمان میں فرق کرنا ہو گا۔“ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ حکم ڈائریکٹر فوڈ پنجاب کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران سامنے آیا‘ جو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے دیا۔ اس سے قبل چیف جسٹس گلزار نے بھی ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اِسی قسم کے احکامات جاری کئے تھے اور احتساب عدالتوں کو حکم دیا تھا کہ بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے اور ان مقدمات کو زیر التوا ءنہ رکھا جائے۔ اُس وقت بھی بنیادی مقصد یہی تھا کہ سزا مجرم کو ملنی چاہئے ملزم کو نہیں۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ عدالت نیب کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیئے کہ مقدمات کی سماعتوں میں تاخیر کی وجہ سے ملزمان غیرضروری طور پر (لمبے عرصے تک) نیب کی تحویل یا پھر جیلوں میں رہتے ہیں جبکہ ایسے ملزمان جو کہ نیب کے مقدمات میں مطلوب ہوں اُنہیں نیب سے متعلق رویوں کے لحاظ سے باآسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ملزموں کے پاسپورٹ‘ بینک اکاو¿نٹس یا جائیداد کے کسی حصے کو کنٹرول کرکے اُس پر دباو¿ ڈالا جا سکتا ہے۔عجیب صورتحال ہے کہ نیب عدالتوں کے پاس سینکڑوں مقدمات زیرالتواءہیں جبکہ ہر چند ہفتے بعد مزید مقدمات قائم ہو جاتے ہیں لیکن نیب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جاتا اور یہی وہ نکتہ ہے جس کے بارے میں توجہ دلاتے ہوئے آئینی امور کے ماہرین حکومتسے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ نیب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرے اور احتساب کے عمل کو دیگر دیوانی و فوجداری مقدمات کے برعکس زیادہ تیزی سے نمٹایا جائے۔ پاکستان میں سخت گیر مالیاتی نظم و ضبط دیکھنے اور منی لانڈرنگ کے امکانات کم کرنے کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ بدعنوانی یا منی لانڈرنگ کرنے والوں کو نامزد اور مشتہر تو کیا جاتا ہے لیکن اُن سے نہ تو ایک پائی وصول ہوتی ہے اور نہ ہی اُنہیں معلوم جرائم کے لئے خاطرخواہ سخت سزائیں دی جاتی ہیں کہ جن سے دوسرے عبرت حاصل کریں اور مالیاتی بدعنوانیوں کو استحقاق نہیں بلکہ جرم سمجھا جائے۔ صورتحال یہ ہے کہ راتوں رات امیر بننے والوں کی معاشرے میں عزت و احترام کم نہیں اور نہ ہی اُن کے لئے یہ مشکل ہے کہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر قومی فیصلہ سازی پر مسلط ہو جائیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے نئے حکم میں ’پلی بارگین‘ کا ذکر نہیں کیا لیکن نیب قوانین میں موجود پلی بارگین کی وجہ سے بھی بدعنوانی کا خاطرخواہ قلع قمع نہیں ہو پا رہا۔ تصور کیجئے کہ ایک ارب روپے کی کرپشن کرنے والے کو چند کروڑ روپے لیکر ’کلین چٹ‘ دیدی جاتی ہے تو کیا اِس سے مالی بدعنوانی کی حوصلہ شکنی ہو پائے گی؟ڈائریکٹر فوڈ لاہور کے خلاف مقدمے میں جب نیب لاہور کی عدالتوں میں زیرالتواءمقدمات کی تفصیلات طلب کی گئیں تو معلوم ہوا کہ کل 80 ریفرنسز زیرالتوا ءہیں اور کئی مقدمات میں فرد جرم عائد ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے جبکہ ملزم نیب کی حراست میں ہیں۔ اِن تفصیلات کو جاننے کے بعد بینچ میں موجود جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ اگر 80 مقدمات ہیں تو اس کیس کی باری کب آئے گی اور اگر مقدمات کی سماعت میں تاخیر کی بنیاد پر ضمانتیں ملنا شروع ہوئیں تو پھر ہر ملزم ضمانت مانگنے لگے گا۔ اگر عدالت اور نیب حکام یہی چاہتے ہیں کہ مقدمات جلد فیصلہ ہوں تو رکاوٹ کیا ہے اور کیوں ہے؟ اس سے قبل سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق کی ضمانت کی درخواست پر نیب کارکردگی کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ عدالت کی طرف سے آنے والی سخت آبزرویشن کے بارے میں نیب کے حکام نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے لیکن اِن تمام تر قانونی موشگافیوں کے باوجود نہ تو زیرسماعت مقدمات کو جلد نمٹایا جا رہا ہے اور نہ ہی نیب قوانین میں موجود اُن خامیوں کو دور کیا جا رہا ہے‘ جن کی موجودگی میں مالی بدعنوانیوں کی حوصلہ شکنی ممکن نہیں۔