میرا لوہے کا گھوڑا گا¶ں کی اونچی نیچی راہوں پر دور تلک جاتی پگڈنڈیوں پر رواں دواں تھا ۔ یہ پتھریلے او رمٹیالے راستے تھے جو درخت کی شاخوں کی طرح دور تلک پھیلے ہوئے تھے۔ہم ناردرن بائی پاس سے نیچے اترکر شارٹ کٹ کے لئے اس دیہی علاقے میں آ گئے تھے مگر آج کل تو شہر کے آس پاس ارد گرد اور گرد ونواح کے گا¶ں دیہات نہیں شہر ہی کاحصہ ہیں۔سواری پاس ہو تو گھنٹہ گھردوہاتھ ہی پر تو ہے کیونکہ سڑکیں زیادہ اور عمدہ چوڑی بن گئی ہیں۔ناردرن بائی پاس اور چارسدہ روڈ کے ملاپ پر سروس روڈ پررش نظر آیا۔آگے ہواتو اسی سڑک کے آر پار بکریاں دیکھیں۔ مالکان رش کی طرف انھیں ہانک رہے تھے ۔ مطلب ہے کہ خرید و فروخت ہو رہی تھی۔مگر میں نے کنفرم کرنا تھا ۔ آگے جا کر ایک راہگیر کے پاس گھوڑے کی بریکیں کھینچ لیں۔ پہلے سلام پھرکلام کیا ۔پوچھا یہ رش کاہے کو ہے ۔اس نے کہابکرا منڈ ی ہے نا۔میںنے پوچھا روز لگتی ہے ۔کہنے لگا نہیں جمعہ کے جمعہ لگتی ہے ۔میں نے پوچھا توکیا یہاں بکرے سستے ملتے ہیں ۔اس نے جواب دیا نہیں خان جی ۔کون سی شے ارزان ہے ۔یہ تو سونا ہے ۔تو کیا سونا سستا ہے۔میں خاموش رہا۔بس خموشی گفتگو بن گئی تھی اور بے زبانی زباں تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ذہن میں اندرون شہر پشاور لاہوری دروازے کے اندر اور گنج گیٹ کے باہر عین سڑک کے بیچوں بیچ لگنے والی بکرا منڈیاں تھیں ۔ یہاں گا¶ں کے سرسبز ماحول سے گزر ہوا تو صبح کے عالم اور نئی آمدہ سردی کے موسم میں یہ منظر بہت دلکش لگا کیونکہ شہر والوں کو کھیت کھلیان ‘گائے بھینسیں گوبر کیچڑ کی دیواریں ‘اصلی دودھ خواہ اندر سے نقلی کیوں نہ ہو ‘پھر دھواں دھار فضا کا نہ ہونا ‘رکشوں کی یلغار ‘چنگ چی کی چیخ و پکار ‘سوزوکیوں کے کلینڈر وں کا شور ‘گھنٹی بجاتی ہوئی سائیکلیں اور ابھی کے ٹکر مار دینے والے موٹر سائیکلوں کا دور دور تک اس گا¶ں کے ماحول میں نظر نہ آنا ایک دن کے لئے سہی یا گھنٹہ دو گھنٹہ کے لئے مگر مزا بہت دیتا ہے ۔اصل میں معاملہ الٹاہے ۔اکثر گا¶ں والوں کو اپنی اصلی اور خالص آب وہوا کو چھوڑ کر ویسے ہی گھومنے گھامنے کے لئے اور بلا ضرورت شہر کی پکی سڑکوں پر چلناپھرنابہت پسند ہے ۔ان کو شہر کے رش سے دل بستگی ہے اور شہر والوں کو اس ہجومِ بے کراں سے الرجی ہے مگر یہ دونوں کیفیات دونوں طبقوں کے لئے عارضی ہیں ۔دونوں طبقات ایک دوسرے کی جگہ پر ہمیشہ کے لئے نہ تو رہ سکتے ہیں او رنہ ہی رہنا چاہتے ہیں۔ کاغان ‘ناران ‘مری ‘سوات اور نتھیا گلی وغیرہ جانے والے ہمیشہ کے لئے تو وہاں شفٹ نہیں ہو جاتے ۔ بہت ہوا تو چار پانچ دن ۔پھر سیر سپاٹے کے بعد انھیں اپنا وہی پنجرہ یاد آنے لگتاہے ۔میں کھیتو ں کے درمیان میں سے گزررہا تھا تو صبح کے اس حسین منظر میں ایک کھیت میں چودہ کسان ہاتھوں لمبے ڈنڈے کے ساتھ لگائے ہوئے کُھرپے اٹھائے ہوئے رقص کی سی کیفیت میں تھے ۔غور سے دیکھا تو میں نے اس طرف موڑ کاٹ لی اور قریب جا کر کھڑاہوگیا۔ وہ مجھ جیسے اجنبی کو نظر اندازکر کے اپنے کام میں ہمہ تن مصروف رہے ۔مزدور تھے اور ان سے کام لینے والے ان کے پاس بیٹھے تھے۔ ان بیچاروں کے پاس تو دیکھنے کی بھی فرصت نہ تھی۔ کھیت میں سے اُگے ہوئے ننھے منے پتوں کے ساتھ جو ایک قطار میں آگے تک گئے ہوئے تھے ‘نالیاں بنا رہے تھے۔ میرے لئے بالکل نیا منظر تھا ۔میں نے زمین پر بیٹھے ہوئے ان دو بندوں سے پوچھا یہ کس چیز کی فصل ہے ۔انھوں نے تو پہلے مجھے مشکوک سمجھا اور مشکوک نظروں سے دیکھا بلکہ بہت غور سے دیکھا ۔ شاید یہ سمجھا ہو کہ یہ وہی نامعلوم موٹر سائیکل سوا رہے جس کاذکر آج کل اخباروں میں بہت آتاہے۔سو میں نے اندازہ کر کے ان کو اطمینان دلانے کے لئے سر پر سے ہیلمٹ اتا رلیا ۔اب انھوں نے جو میری شکل دیکھی تو شاید انھیں بھلی لگی ہو وہ گھل مل گئے۔ کہا یہ گوبھی کی فصل ہے ۔اچھا کہہ کر میںنے حیرانی کا اظہار کیا کیونکہ ابھی کل ہی گوبھی کھائی تھی ۔مگر کبھی بھی کھائی ہو سوچا نہیں کہ یہ آتی کہاں سے ہے اور کس طرح کھیت میں اگتی ہے کیونکہ میری پسندیدہ سبزی بھی تو ہے اگر ساتھ قیمہ یا گوشت اس ہانڈی میں پڑا ہوتو سارے پرہیز اور بسیار خوری کے منع کرنے والوں کے چہرے ان کے اقوال کے سمیت بھول جاتے ہیں۔ بائیک کی پچھلی سواری کہنے لگی یہ کیا تم ہر جگہ کھڑے ہو جاتے ہواور فضول فضول سوالات کرنے لگتے ہو ۔میں نے کہا سوال کرنا بہت ضروری ہے ۔اسی سے تو معلومات حاصل ہوتی ہیں۔پھر سوال ہر ذہن میں بھی تو پیدا بھی نہیں ہوتا۔ کہنے لگی یہ بات نہیں ۔تمھارے ساتھ گھر سے باہر آنا جھک مارناہے ۔ہرجگہ تم شروع ہو جاتے ہو۔ساتھ والے کھیت کی باڑ پر جو آدمی بیٹھا تھامیں نے اس سے پوچھا کہ یہ کس چیز کی فصل ہے ۔اس نے کہا یہ دھنیہ ہے ۔مجھے یہا ںکافی دیر کھڑ ے ہوناتھا ۔مگر اوپرسے آرڈر تھے کہ بس بہت ہو چکا جلدی چلو اب۔راہ چلتے ہوئے لوگوں روک لیتے ہو اور بکری کو دیکھ کر مالک سے پوچھتے ہو یہ کیا ہے ۔